بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پھل دار درخت ایصالِ ثواب کے لیے تقسیم کرنا


سوال

میں ایصالِ ثواب کے لیے صدقۂ جاریہ کے طور پر پھل دار  درخت لا کر تقسیم کرنا چاہتا ہوں، اور خود بھی لگانا چاہتا ہوں، کیا یہ صدقہ جاریہ میں آتا ہے؟

جواب

اہلِ سنت والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے  ہیں  ان کے لیے دعا بھی کی جا سکتی ہے  اور ان کو اعمال ہدیہ بھی کیے جا سکتے ہیں خواہ پڑھ کربخشا جائے یا ان کی طرف سے صدقہ کیا جائے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، ان کے لیے کیا  صدقہ افضل ہے؟ آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پانی،  انہوں نے ایک کنواں کھدوایا، اور فرمایا کہ یہ سعد کی والدہ کے لیے ہے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان نے کوئی درخت لگایا اور اس کا پھل آدمیوں اور جانوروں نے کھایا تو اس لگانے والے کے لیے صدقہ کا ثواب ہے۔“(صحیح بخاری)

ایک روایت میں آتا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا کہ جب کوئی مسلمان  درخت یا کھیتی لگائے، اور اس  میں سے کوئی انسان، درندہ، پرندہ، یا چوپایا  کھائے تو وہ اس کےلیے صدقہ بن جاتا ہے۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ درخت لگانا بلا شبہ نیکی اور ثواب کا کام ہے، نیز جب درخت لگانا لگانے والے کے لیے باعثِ ثواب ہے تو اس کا ثواب دوسرے کو ایصال کرنا بھی  درست ہو گا۔

اور مجمع الزوائد  کی روایت سے تو صراحتاً معلوم ہوتاہے کہ پھل دار  درخت لگانا بھی صدقہ جاریہ میں شامل ہے۔ 

"عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: إن النبي صلى الله عليه وسلم قال: سبع يجري للعبد أجرهن وهو في قبره بعد موته: من عَلّم علماً، أو کریٰ نهراً، أو حفر بئراً، أو غرس نخلاً، أو بنى مسجداً، أو ورّث مصحفاً، أو ترك ولداً يستغفر له بعد موته". ( مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، کتاب العلم ، ١ / ١٦٨ ، دار الکتاب العربی ، بیروت )

" صحیح الجامع الصغیر و زیادته ، حدیث : ٣٦٠٢ ، المکتب الاسلامی ، بیروت )

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات اعمال ایسے ہیں جن کا اجر و ثواب بندے کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ، حال آں کہ وہ قبر میں ہوتاہے :
(1) جس نے علم سکھایا ، (2) یا نہر کھدوائی ، (3) یا کنواں کھودا (یا کھدوایا)، (4) یا کوئی درخت لگایا ، (5) یا کوئی مسجد تعمیر کی، (6) یا قرآن شریف ترکے میں چھوڑا، (7) یا ایسی اولاد چھوڑ کر دنیا سے گیا جو مرنے کے بعد اس کے لیے دعائے مغفرت کرے ۔

صحيح مسلم (3/ 1188):
"عن جابر، أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل على أم مبشر الأنصارية في نخل لها، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم: «من غرس هذا النخل؟ أمسلم أم كافر؟» فقالت: بل مسلم، فقال: «لا يغرس مسلم غرسا، ولا يزرع زرعا، فيأكل منه إنسان، ولا دابة، ولا شيء، إلا كانت له صدقة»".

مشكاة المصابيح (1/ 597):

"وعن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء». فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي".

اس حدیث میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پانی کے صدقہ کا ثواب پہنچانے کا امر فرمایا، معلوم ہواکہ صدقے کا ثواب میت کو پہنچتاہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی علیہ السلام سے پوچھا : میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنے پیچھے مال چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کردوں، کیا ان کے گناہوں کے لیے معافی کا ذریعہ ہوجائے گا؟ فرمایا: ہاں! تمہارے صدقات سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔

صحيح مسلم (3/ 1254):

"عن أبي هريرة، أن رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: «نعم»". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200358

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں