بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پوسٹ مارٹم کرانا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟


سوال

کیا پوسٹ مارٹم کرانا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟تفصیل سے جواب بتائیں!

جواب

انسانی جسم کا احترام جس طرح زندہ ہونے کی حالت میں لازم ہے، اسی طرح فوت ہونے کے بعد انسانی لاش زندہ جسم کی طرح قابلِ احترام ہے، چوں کہ پوسٹ مارٹم کرنے میں انسانی جسم کی بے احترامی تو ظاہر ہے، بلکہ توہین بھی لازم آتی ہے کہ جسم کی چیرپھاڑ  کی جاتی ہے اور جسم سے گوشت، ہڈی وغیرہ کو بطورنمونہ کے حاصل کیا جاتاہے؛ اس لیے شرعاً پوسٹ مارٹم کی اجازت نہیں۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار- (2 / 238):
"(قوله: ولو بلع مال غيره) أي ولا مال له كما في الفتح و شرح المنية، ومفهومه أنه لو ترك مالاً يضمن ما بلعه لايشق اتفاقاً، (قوله: والأولى نعم) لأنه وإن كان حرمة الآدمي أعلى من صيانة المال، لكنه أزال احترامه بتعديه كما في الفتح، ومفاده أنه لو سقط في جوفه بلا تعد لايشق اتفاقاً، كما لايشق الحي مطلقاً لإفضائه إلى الهلاك لا لمجرد الاحترام".

فتح القدير لكمال بن الهمام  (3 / 431):
"وَفِي التَّجْنِيسِ مِنْ عَلَامَةِ النَّوَازِلِ: امْرَأَةٌ حَامِلٌ مَاتَتْ وَاضْطَرَبَ فِي بَطْنِهَا شَيْءٌ وَكَانَ رَأْيُهُمْ أَنَّهُ وَلَدٌ حَيٌّ شُقَّ بَطْنُهَا، فَرْقٌ بَيْنَ هَذَا وَبَيْنَ مَا إذَا ابْتَلَعَ الرَّجُلُ دُرَّةً فَمَاتَ وَلَمْ يَدَعْ مَالًا عَلَيْهِ الْقِيمَةُ، وَلَايُشَقُّ بَطْنُهُ؛ لِأَنَّ فِي الْمَسْأَلَةِ الْأُولَى إبْطَالَ حُرْمَةِ الْمَيِّتِ لِصِيَانَةِ حُرْمَةِ الْحَيِّ فَيَجُوزُ. أَمَّا فِي الْمَسْأَلَةِ الثَّانِيَةِ إبْطَالُ حُرْمَةِ الْأَعْلَى وَهُوَ الْآدَمِيُّ لِصِيَانَةِ حُرْمَةِ الْأَدْنَى وَهُوَ الْمَالُ، وَلَا كَذَلِكَ فِي الْمَسْأَلَةِ الْأُولَىو انْتَهَى. وَتَوْضِيحُهُ الِاتِّفَاقُ عَلَى أَنَّ حُرْمَةَ الْمُسْلِمِ مَيِّتًا كَحُرْمَتِهِ حَيًّا، وَلَايُشَقُّ بَطْنُهُ حَيًّا لَوْ ابْتَلَعَهَا إذَا لَمْ يَخْرُجْ مَعَ الْفَضَلَاتِ فَكَذَا مَيِّتًا، بِخِلَافِ شَقِّ بَطْنِهَا لِإِخْرَاجِ الْوَلَدِ إذَا عُلِمَتْ حَيَاتُهُ. وَفِي الِاخْتِيَارِ جُعِلَ عَدَمُ شِقِّ بَطْنِهِ عَنْ مُحَمَّدٍ، ثُمَّ قَالَ: وَرَوَى الْجُرْجَانِيُّ عَنْ أَصْحَابِنَا أَنَّهُ لَايُشَقُّ؛ لِأَنَّ حَقَّ الْآدَمِيّ مُقَدَّمٌ عَلَى حَقِّ اللَّهِ تَعَالَى وَمُقَدَّمٌ عَلَى حَقِّ الظَّالِمِ الْمُتَعَدِّي انْتَهَى، وَهَذَا أَوْلَى، وَالْجَوَابُ مَا قَدَّمْنَا أَنَّ ذَلِكَ الِاحْتِرَامَ يَزُولُ بِتَعَدِّيهِ". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں