بحوالہ فتوٰی نمبر۔ 143909201678
آپ کے ارسال کردہ جواب کا انتہائی ممنون ہوں۔ کچھ نکات پر اشکال ہیں، امید ہے سائل کی تشقی فرمائیں گے۔
میں نے اپنے متذکرہ سوال میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ سن ۲۰۱۰ میں پہلا پلاٹ خریدتے وقت بھی اور بعد ازاں گزشتہ سال اس کو فروخت کر کے دوسرے پلاٹ لیتے وقت بھی سائل کی نیت کسی طور بھی ان سے نفع کمانے کی نہیں تھی، جیسا کے جناب کے جواب سے اخذ کیا گیا ہے، بلکہ پہلے اور بعدازاں بھی نیت ان کی فروخت سے اپنے اور بچوں کے لیے ایک ذاتی گھر لینے کی ہے کہ سائل کے پاس ابھی تک ذاتی رہائش موجود نہیں ہے اور سرکاری گھر میں رہائش پذیر ہے۔
صورتِ مسئولہ میں کیا ایسے پلاٹس پر زکاۃ ادا کی جائیگی جب کہ نیت یہ ہے کہ ان کی قیمت مناسب ہو جاۓ یعنی اس قدر ہو جاۓ کہ ہم مناسب جگہ پر ان کی فروخت سے حاصل شدہ رقم سے خا لص ذاتی رہائش لے سکیں؟ یہ بات واضح ہو کے میری کسی بھی وقت یہ نیت نہیں رہی ہے کہ میں ان پلاٹس سے کاروباری نفع کماؤں گا ۔ امید ہے کہ جلد جواب عنایت فرما کر سائل کی تشقی فرما ئیں گے!
زمین کی خریداری میں یہ نیت کرنا کہ اس کی قیمت بڑھ جانے پر اس کو فروخت کروں گا، صرف اتنی نیت اس زمین کے تجارتی ہونے کے لیے کافی ہے، پھر خواہ بعد میں اس کو فروخت کرکے تجارت کریں یا کوئی اور گھر خریدیں۔
باقی آپ کی وضاحت کے مطابق ان پلاٹوں میں آپ کی نیت رہائش کی نہیں تھی ، بلکہ ان کو فروخت کرکے دوسرا مکان رہائش کے لیے لینا تھا، لہذا جب دوسرا مکان رہائش کی غرض سے لیں گے تب اس مکان میں زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔
السنن الكبرى للبيهقي (4/ 247):
"عن سمرة بن جندب: " أما بعد فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمرنا أن نخرج الصدقة من الذي نعد للبيع".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 273):
"وشرط مقارنتها لعقد التجارة، وهو كسب المال بالمال بعقد شراء أو إجارة أو استقراض.
سابقہ فتوی کا لنک درج ذیل ہے:
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D9%BE%D9%84%D8%A7%D9%B9-%D9%81%D8%B1%D9%88%D8%AE%D8%AA-%DA%A9%D8%B1%DA%A9%DB%92-%DA%AF%DA%BE%D8%B1-%D8%A8%D9%86%D8%A7%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%DB%8C%D8%AA-%D8%B3%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%DA%AF%D8%A6%DB%92-%D9%BE%D9%84%D8%A7%D9%B9-%DA%A9%DB%8C-%D8%B2%DA%A9%D9%88-%DB%83/03-08-2018
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201958
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن