بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ پر زکاۃ


سوال

 میں نے پچھلے پندرہ سال کی مدت میں پانچ پلاٹ مختلف ہاؤسنگ سوسائٹی  میں مختلف اوقات میں خریدے ہیں۔ ایک پلاٹ نقد ادائیگی پر اور باقی قسطوں پر۔ ان میں سے ایک پلاٹ کی قسطیں ابھی باقی ہیں۔ ان پانچ پلاٹ میں سے قبضہ ابھی کسی ایک پلاٹ کا بھی نہیں ملا ہے۔ خریدتے وقت میری نیت ان پلاٹ کو بیچنے کی نہیں تھی،  بلکہ تعمیر کرا کر اپنے استعمال یا کرایہ پر دینے کی تھی۔ اور ابھی تک کوئی پلاٹ میں نے بیچا بھی نہیں ہے۔ اگرچہ مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ اور دیگر وجوہات سے کبھی کبھی کچھ یا سارے پلاٹ بیچ دینے کا خیال دل میں آتا ہے۔ سوال یہ پوچھنا ہے کہ ان پلاٹ پر زکاۃ  کا کیا حکم ہے؟ اگر ان میں سے کوئی ایک، چند یا سارے پلاٹ میں اب بیچ دوں تو زکاۃ  کا کیا حکم ہوگا؟  اور کس حساب سے ادا کی جائیگی؟ اگر ان پلاٹ پر میں تعمیر نہیں کراتا،  بلکہ اپنے ابھی تین کمسن بچوں کے لیے رکھ چھوڑتا ہوں تو زکاۃ  کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

جب آپ نے ان پلاٹوں کو خریدتے وقت بیچنے کی نیت نہیں کی تھی ، بلکہ گھر بنانے یا کرایہ کی نیت تھی تو جب تک آپ ان پلاٹوں کو بیچتے نہیں ہیں ان میں زکاۃ  نہیں ہے۔البتہ جب آپ ان کو بیچ دیں تو اس وقت دیکھا جائے گا کہ اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں تو زکاۃ کا سال مکمل ہونے پر دیگر اموال کی زکاۃ کے ساتھ اس رقم(میں سے جو سال پورا ہونے پر موجود ہو اس) کی بھی زکاۃ ادا کرنا ہوگی۔ اور اگر آپ پلاٹ بیچنے کے وقت صاحبِ نصاب نہ ہوں تو پلاٹ بیچنے کے بعد اس کی مالیت کی وجہ سے آپ صاحبِ نصاب ہوجائیں گے، چناں چہ اس کے بعد سال پورا ہونے پر جتنی نقد رقم (سونا، چاندی اور مالِ تجارت اگر نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ) موجود ہو اس کے مجموعے پر زکاۃ واجب ہوگی۔

موجودہ صورتِ حال میں اگر آپ کوئی پلاٹ نابالغ اولاد میں سے کسی کے نام کردیتے ہیں تو اس پلاٹ پر زکاۃ نہیں آئے گی۔

"والأصل أن ما عدا الحجرین والسوائم إنما یزکي بنیة التجارة ..." الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۹۴، )

الموسوعة الفقهية الكويتية (23/ 271):
" اتفق الفقهاء على أنه يشترط في زكاة مال التجارة أن يكون قد نوى عند شرائه أو تملكه أنه للتجارة، والنية المعتبرة هي ما كانت مقارنةً لدخوله في ملكه؛ لأن التجارة عمل فيحتاج إلى النية مع العمل، فلو ملكه للقنية ثم نواه للتجارة لم يصر لها، ولو ملك للتجارة ثم نواه للقنية وأن لايكون للتجارة صار للقنية، وخرج عن أن يكون محلاً للزكاة ولو عاد فنواه للتجارة لأن ترك التجارة، من قبيل التروك، والترك يكتفى فيه بالنية كالصوم". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200600

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں