بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منکرینِ حدیث کا حکم


سوال

 پرویزی لوگوں کے عقائد کیا ہیں؟  (1)کیا وہ کافر ہیں؟(2) کیا ان کو شادی کی دعوت میں مدعو کرنا ٹھیک ہے؟ (3) اگر ان کو شادی کی تقریب میں دعوت ہو تو اس تقریب میں شرکت کرنا کیسا ہے؟ (4)جو لوگ پرویزیوں سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے گھر میں لڑکی دینا کیسا ہے؟

جواب

1، 2 ) واضح رہے کہ غلام احمد پرویز اور اس کے پیروکار ضروریاتِ  دین، نماز، روزہ، حج، زکاۃ  اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور صریح نصوصِ قرآنیہ کے بالکل مخالف و منافی نظریات کے حامل ہیں، اور انہوں نے آیاتِ قرآنیہ کی مضحکہ خیز من چاہی تاویلات کی ہیں، جس سے یہ بات واضح ہے کہ غلام احمد پرویز اور اس کی متبعین کا دینِ محمدی سے کوئی تعلق نہیں،  بلکہ یہ دائرہ اسلام سے خارج اور کافر فرقہ ہے۔

سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ نے حضرت بنوری رحمہ اللہ کے ایماء پر منکرینِ حدیث کے حوالے سے ایک تفصیلی فتویٰ بھی تحریر فرمایا، جس پر  اس وقت پاکستان، بنگلہ دیش (جو مشرقی پاکستان تھا)، سعودی عرب اور شام  کے سرکردہ مفتیانِ کرام اور اہلِ علم (بشمول محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی، مولانا احمدعلی لاہوری، مولانا شمس الحق افغانی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مفتی محمود، مفتی مہدی حسن (دیوبند) مولانا فخرالدین (دیوبند) مولانا خیر محمد جالندھری، مولانا ادریس کاندہلوی وغیرہم رحمہم اللہ ) کے دستخط موجود ہیں، دارالعلوم دیوبند کے مفتیانِ کرام اور علماءِ عرب (حنفی، مالکی، شافعی وحنبلی) کی تصدیقات و تائیدات اور ملک بھر کے تمام مسالک کے اہلِ علم (بریلوی، اہلِ حدیث اور شیعہ) کی تصدیقات (جن کی تعداد تقریباً ساڑھے گیارہ سوہے) بھی شامل ہیں، بعد ازاں یہ تحقیق ’’فتنہ انکارِ حدیث‘‘ کے نام سے شائع ہوگئی۔

مذکورہ فرقہ کے افراد سے یارانہ رکھنا جائز نہیں، قرآنِ مجید میں صراحت کے ساتھ کفار کے ساتھ یارانہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: مؤمنین مؤمنین کو چھوڑ کر کفار کو دوست نہ بنائیں، تفسیر طبری میں ہے:

{ لَا يَتَّخِذ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِنْ دُون الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَل ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنْ اللَّه فِي شَيْء إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاة } وَهَذَا نَهْي مِنْ اللَّه عَزَّ وَجَلَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ يَتَّخِذُوا الْكُفَّار أَعْوَانًا وَأَنْصَارًا وَظُهُورًا ، وَلِذَلِكَ كُسِرَ " يَتَّخِذ " لِأَنَّهُ فِي مَوْضِع جَزْم بِالنَّهْيِ ، وَلَكِنَّهُ كُسِرَ الذَّال مِنْهُ لِلسَّاكِنِ الَّذِي لَقِيَهُ وَهِيَ سَاكِنَة . وَمَعْنَى ذَلِكَ : لَا تَتَّخِذُوا أَيّهَا الْمُؤْمِنُونَ الْكُفَّار ظَهْرًا وَأَنْصَارًا ، تُوَالُونَهُمْ عَلَى دِينهمْ , وَتُظَاهِرُونَهُمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ مِنْ دُون الْمُؤْمِنِينَ ، وَتَدُلُّونَهُمْ عَلَى عَوْرَاتهمْ , فَإِنَّهُ مَنْ يَفْعَل ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنْ اللَّه فِي شَيْء ; يَعْنِي بِذَلِكَ ، فَقَدْ بَرِئَ مِنْ اللَّه، وَبَرِئَ اللَّه مِنْهُ بِارْتِدَادِهِ عَنْ دِينِهِ، وَدُخُوله فِي الْكُفْر، إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاة، إِلَّا أَنْ تَكُونُوا فِي سُلْطَانهمْ، فَتَخَافُوهُمْ عَلَى أَنْفُسكُمْ، فَتُظْهِرُوا لَهُمْ الْوِلَايَة بِأَلْسِنَتِكُمْ، وَتُضْمِرُوا لَهُمْ الْعَدَاوَة، وَلَا تُشَايِعُوهُمْ عَلَى مَا هُمْ عَلَيْهِ مِنْ الْكُفْر، وَلَا تُعِينُوهُمْ عَلَى مُسْلِم بِفِعْلٍ . كَمَا : 5367 - حَدَّثَنِي الْمُثَنَّى , قَالَ : ثنا عَبْد اللَّه بْن صَالِح , قَالَ : ثني مُعَاوِيَة بْن صَالِح، عَنْ عَلِيّ  عَنْ اِبْن عَبَّاس قَوْله : { لَا يَتَّخِذ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِنْ دُون الْمُؤْمِنِينَ } قَالَ : نَهَى اللَّه سُبْحَانه الْمُؤْمِنِينَ أَنْ يُلَاطِفُوا الْكُفَّار، أَوْ يَتَّخِذُوهُمْ وَلِيجَة مِنْ دُون الْمُؤْمِنِينَ، إِلَّا أَنْ يَكُون الْكُفَّار عَلَيْهِمْ ظَاهِرِينَ، فَيُظْهِرُونَ لَهُمْ اللُّطْف، وَيُخَالِفُونَهُمْ فِي الدِّين" . 

پس صورتِ مسئولہ میں پرویزی فرقہ سے اس طور پر تعلقات رکھناکہ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شرکت کی جائے، جائز نہیں، اگرچہ عام کفار کے بارے میں شریعت نے اجازت دی ہے کہ پڑوس یا رشتہ داری کی بنا پر ان کی خوشی غمی میں شرکت کی جا سکتی ہے یا ان کو اپنی خوشی غمی میں مدعو کیا جاسکتا ہے، تاہم پرویزی و قادیانی فرقہ کے ساتھ پڑوس یا رشتہ داری ہونے کے باوجود تعلقات روا رکھنے کی اجازت نہیں، کیوں کہ یہ فرقہ دائرہ اسلام سے خارج و کافر ہوں نے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان باور کرانے کی سعی میں نہ صرف مصروفِ عمل رہتا ہے، بلکہ اپنے علاوہ دیگر تمام حقیقی مسلمانوں کو گم راہ گردانتا ہے، لہذا نہ ان کو اپنی خوشی غمی میں مدعو کیا جائے اور نہ خود ان کی خوشی غمی میں شریک ہوں، تاکہ ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو، اور ہدایت کی راہ کھل سکے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ} [الممتحنة: ١]

ترجمہ: اے ایمان والو! تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ، کہ ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو، حال آں کہ تمہارے پاس جو دین حق آچکا ہے وہ اس کے منکر ہیں۔ ( بیان القرآن)۔

3) ایسی دعوت میں شرکت کرسکتے ہیں، تاہم دعوت کرنے والے کو اس فرقہ کے حوالے سے آگاہ کردینا چاہیے۔

4) ایسے گھرانے میں اپنی بچی کا نکاح کرانا فی نفسہ جائز ہے، تاہم بہتر نہیں، کیوں کہ پرویزوں سے یارانہ رکھنے کی وجہ سے عقائد کے فساد کا قوی اندیشہ ہے، جس کی وجہ سے بیٹی کے عقائد و نظریات میں خرابی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200410

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں