بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پردہ کی تفصیل


سوال

عورت کا پردہ کہاں  تک واجب ہے؟

جواب

آپ کا سوال کافی مجمل ہے تاہم  پردے کے حوالہ سے اہم اور ضروری باتیں پیش خدمت ہیں :

1-  پردے  کی عمر    ۔ 2- کتنے جسم کا پردہ کرنا ضروری ہے؟ 3- گھر کے اندر اور گھر سے باہر پردے کی نوعیت کیا ہو ؟ 4- پردہ کس سے ضروری ہے  ؟

ہر ایک کا جواب  قدرے وضاحت سے  دیا جاتا ہے ۔

1-    پردے  کی عمر:

بچی پر پردے  کی فرضیت تو  دیگر  اَحکام کی طرح بالغ ہونے کے  ساتھ  ہی ہوتی ہے، لیکن فقہاءِ کرام  نے لکھا ہے کہ نو برس کی عمر سے باہر نکلتے  وقت اس کی عادت ڈال دی جائے، خصوصًا اس پُرفتن دور میں اس کا اہتمام   بہت ہی ضروری ہے۔

2،3- کتنے جسم کا پردہ کرنا ضروری ہے اور  اندرونِ  خانہ اور بیرونِ  خانہ پردے  کی تفصیل:

عورت  کا تمام  بدن ستر ہے، اپنے گھر میں  بھی اس کو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض  اور  لازم ہے،  مگر چہرہ اور  دونوں ہاتھ  کہ  ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے، اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں،  اپنے گھر میں ان اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے، البتہ گھر  سے باہر نکلتے ہوئے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے۔  اور گھر میں اگر صرف محارم ہوں یا عورت تنہا ہو، اور کام کاج کے وقت آستین چڑھانے یا دوپٹہ اتارنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس کی اجازت ہے، لیکن گھر میں غیر محرم ہونے کی صورت میں کام کاج کے وقت بھی مستورہ اعضاء کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔

مولانا محمد ادریس  کاندہلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے’’وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ‘‘کے تحت لکھا ہے:

’’عورت کو اپنی یہ زینتِ  ظاہرہ  (چہرہ  اور دونوں  ہاتھ )   صرف محارم کے سامنے کھلا  رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سربازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں، حسن وجمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے، اس لیے شریعتِ مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا۔‘‘   (معارف القرآن، کاندھلوی)

رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی  اللہ عنہما آیتِ  قرآنی{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ}  [الأحزاب:59]کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

تفسير الألوسي = روح المعاني (11/ 264):

"وقال ابن عباس وقتادة: تلوي الجلباب فوق الجبين وتشده ثم تعطفه على الأنف وإن ظهرت عيناها لكن تستر الصدر ومعظم الوجه، وفي رواية أخرى عن الحبر رواها ابن جرير، وابن أبي حاتم وابن مردويه تغطي وجهها من فوق رأسها بالجلباب وتبدي عيناً واحدةً".

یعنی اللہ تعالی ٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانک کر نکلیں اور صرف ایک آنکھ  یا دو آنکھیں کھلی رکھیں۔

لہذا عورت جب بھی اپنے گھر سے نکلے (خواہ بازار کے لیے ہو یا سفر کے لیے) چہرے سمیت پورے بدن کے پردے کے ساتھ  نکلے، ورنہ گناہ  گار ہو گی ۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے سفر کے دوران بھی پردے کی پابندی منقول ہے۔

اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ پردہ کے تین درجات ہیں:

(۱)   شرعی حجابِ اشخاص،  یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں، اس کی دلیل یہ ہے: {وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ}    (الاحزاب:۳۳) ’’اورتم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔‘‘

)ضرورت کے تحت جب عورت کو گھر سے باہر جانا پڑے تواس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیر تک اوڑھ کر نکلے جس کاحکم (یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ )[الاحزاب:۵۹] ( ترجمہ :سر سے نیچے کرلیا کریں اپنی ٹھوڑی سے اپنی چادریں) میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پاؤں  تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو، صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔

)پورا جسم تو مستور ہو، مگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں، أئمہ اربعہ میں سے امام شافعی ،امام مالک، اما م احمد رحمہم اللہ  نے تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاًاجازت نہیں دی، خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو، البتہ امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرفتنہ کاخوف ہو تو کھولنا منع ہے، لیکن اس زمانہ میں خوفِ فتنہ نہ ہونے کا احتمال شاذ و نادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے متأخرین فقہاءِ احناف نے بھی وہی فتویٰ دے دیا جو أئمہ ثلاثہ نے دیا تھا کہ جوان عورت کے چہرہ یا ہتھیلیوں کا کھولنا ناجائز اور پردہ کرنا ضروری ہے ۔

4-  پردہ کس سے ضروری ہے ؟

جتنے غیر محارم مرد ہیں لڑکی کے لیے ان سے پردہ کرنا واجب ہے، اور جتنی   غیر محرم خواتین  ہیں،  لڑکے کے لیے ان سے پردہ کرنا ضروری ہے، یعنی ان کے چہرے کو دیکھنا جائز نہیں، اور  جو  خواتین  محرم  ہوں،  ان  سے  پردہ  نہیں  ہے۔

اب  محارم  اور  غیر محارم کو سمجھ لیں کہ  تمام اصول (یعنی والدہ، دادی، نانی وغیرہ اوپر تک) اور فروع( یعنی بیٹی، پوتی، نواسی وغیرہ نیچے تک) محارم ہیں، اسی طرح  بہن اور بہن کی اولاد (بھانجیاں اور ان کی اولاد)، اسی طرح بھائی کی اولاد( بھتیجیاں اور ان کی اولاد) ، پھوپھی اور خالہ بھی محارم میں شامل ہیں،اسی طرح بیوی کی ماں (خوش دامن) اور اس کی دادی،نانی وغیرہ، بیوی کی بیٹی (جو کسی اور شوہر سے ہو ) جب کہ بیوی سے صحبت کی ہو، والد کی منکوحہ (جس کو ہمارے عرف میں سوتیلی ماں کہا جاتا ہے) اور بیٹے کی منکوحہ (بہو) بھی محارم میں سے ہیں،  ان محارم سے  کوئی پردہ نہیں، یہی تمام رشتے اگر رضاعی ہوں تو ان کا بھی یہی حکم ہے۔

چند اہم ضروی باتیں عرض کردی گئی اس سلسلہ میں ہمارے بعض اکابر  ( قاری طیب صاحب رحمہ اللہ ، مولانا عاشق الہی صاحب رحمہ اللہ  )نے مستقل  رسالے اور کتابچے تحریر  کیے ہیں جن کا مطالعہ مفید ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201587

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں