بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پراپرٹی کے کاروبار کی چند صورتیں اور ان کا حکم


سوال

1۔آج کل زمین کی خریدوفروخت کا کاروبار بہت زوروں پر ہے،کسی بھی پروجیکٹ پر بکنگ کروالینے کے بعد 2.3 قسطیں بھر کر اس کو فروخت کے لیے لگادیتے ہیں،اور اس پر دوتین لاکھ نفع مانگا جاتاہے اور جتنا نفع مل جائے، آگے دوسری پارٹی پر اس کو فروخت کردیتے ہیں،معلوم یہ کرناتھا کہ شریعت کے لحاظ سے یہ طریقہ کار درست ہے؟اس طرح سے کاروبار کیا جاسکتاہے؟

2۔ پراپرٹی کے کاروبار میں ایک طریقہ یہ بھی چل رہاہے کہ ایک پارٹی مثلاً ایک زمین کا بیس لاکھ میں سودا کرکے  ایگریمنٹ دستخط وغیرہ کے بعد ساٹھ یا نوے دن کا وقت لے کر اس زمین کو آگے بیچ دیتے ہیں، مثلاً پچیس لاکھ میں بیچ دیا اور باقی رقم بعد میں وصول کریں گے ، پانچ لاکھ کا منافع ہوا ،کیااس طرح بیچنا درست ہے؟

3۔ایسا بھی ہوتاہے کہ ایک آدمی کچھ لوگوں سے ڈیل کرکے کہتاہے کہ پانچ یا دس لاکھ روپے انویسٹ کرو پھر بعد انہیں ایک لاکھ یا دولاکھ فکس نفع دیتاہے ،چاہے خود اس شخص کو فائدہ ہو یانقصان،اور عموماً تو فائدہ ہی ہوتاہے،کیااس طرح کرناجائز ہے؟

4۔اسی طرح پلاٹ لے کر اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے اور نیت یہ ہو کہ یا تو اپنے لیے تعمیرات کریں گے اور یا اچھی رقم ملے گی تو اسے بیچ دیں گے ان دونوں صورتوں میں اس پلاٹ پر زکاۃ ہوگی یانہیں؟

5۔آج کل نو ،دس محرم کو ، بارہ ربیع الاول،شب برات اور شب معراج میں لوگ شربت وغیرہ مختلف چیزیں بانٹتے ہیں کیا ان دنوں میں جو کچھ بانٹا جاتاہے اسے لینااور کھاناچاہیے یا نہیں؟

جواب

1۔اگرفلیٹ وغیرہ کی بکنگ کی جائے اوراس فلیٹ کا کم ازکم ڈھانچہ تیار ہوجائے تو اسے آگے نفع کےساتھ فروخت کرنا جائز ہے۔اگر ڈھانچہ تیار نہ ہو تو نفع کے ساتھ بینچاجائز نہیں۔  اور اگر صرف زمین خرید کر مکمل ادائیگی سے پہلے اسے نفع پر آگے بیچ دیا جائےتو اس کا حکم نمبر دو کے تحت آرہاہے۔

2۔درست ہے۔

3۔ شراکت میں کسی ایک شریک کے لیے نفع کی رقم متعین کرناجائز نہیں ہے ۔

4۔ اس طرح کا  پلاٹ جس میں خریدتے وقت آدمی نے کوئی ایک  جہت(تعمیر یافروخت کرنے کی) متعین نہ کی ہو، اس میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی ۔

5۔ ان دنوں میں کی جانے والی نذر ونیاز اگرغیراللہ کے نام کی ہوتواس کا کھانا جائزنہیں۔اگر اللہ کے نام پر ہو تو بدعت ہے، اگرچہ اس صورت میں وہ چیز حرام نہیں ہے لیکن اس کے کھانے سے اجتناب کرناچاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143810200009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں