ایک آدمی نے مسجد کے لیے جگہ وقف کردی، وہ جگہ کم ہونے کی وجہ سے اس کے قریب سڑک کے دوسری جانب ایک بڑی جگہ، دوسرے آدمی نے وقف کی اور اس میں مسجد بن گئی، اب دوسری مسجد کی تعمیرِ نو کی ضرورت ہے اور موقوف شدہ پہلی جگہ بالکل خالی ہے، فی الحال یا آئندہ بھی اس کومسجدمیں شامل کرنے کی گنجائش نہیں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس جگہ کو فروخت کرکے اس کی رقم مسجد کی تعمیر میں صرف کرنا جائز ہے یا نہیں؟ واقف حیات ہے اور اس کی رائے بھی یہی ہے۔
جو جگہ مسجد کے لیے وقف کردی گئی ہے۔ اب اس کو بیچنا یا منتقل کرنا جائز نہیں۔ ابھی ضرورت نہیں ہے تو ممکن ہے آئندہ آبادی بڑھنے کی وجہ سے ضرورت پیش آجائے، بہرحال آئندہ وہ آباد ہوسکتی ہے۔
" قال أبو يوسف: هو مسجد أبدًا إلى قيام الساعة، لايعود ميراثًا، ولايجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا، وهو الفتوى، كذا في الحاوي القدسي، وفي المجتبى: وأكثر المشايخ على قول أبي يوسف، ورجح في فتح القدير قول أبي يوسف بأنه الأوجه". (البحر الرائق: ٥/ ٢٧٢) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105201113
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن