بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پرانی مسجد چھوڑ کر نئی مسجد میں نماز پڑھنا


سوال

ہمارےگاوُں میں زلزلہ کےدوران مسجدشہید ہوگئی تھی پورےگاوُں کےلوگ اسی مسجد میں نمازاداکرتےتھے،اس کےعلاوہ اورکوئی مسجدنہیں تھی، زلزلہ کےبعددوبارہ اس مسجدکو اسی جگہ میں تعمیرکیاگیا اورساتھ اسی گاوُں میں دو اورمسجدیں بنائی گئیں، اب گاوُں کےزیادہ لوگ مرکزی مسجدکو چھوڑ کر دوسری دو مسجدوں میں نمازپڑھتےہیں، جب کہ مرکزی مسجد میں ایساوقت بھی آتاہےکوئی اذان دینےوالانہیں ہوتا، کیااس طرح کرنےسےپورےگاوُں والے گناہ گارتونہیں ہوں گے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ زلزلہ میں جامع مسجد کے  شہید ہونے کے بعد  اسے دوبارہ تعمیر کرنے کے ساتھ ضرورت کی وجہ سے دوسری دو مسجدیں بنانا جائزتھا، اور ان مساجد میں نماز پڑھنا  بھی درست ہے، لیکن قدیم مسجدمیں  نماز پڑھنا افضل ہے۔ اور قدیم مسجد  میں نماز  کی ادائیگی چھوڑ کر اسے ویران کردینا شرعاً ناجائز ہے،  ، لہذا گاؤں میں جو مسجد جن لوگوں سے قریب ہو وہ اس میں نماز پڑھیں ، ورنہ قدیم مسجد کو ویران کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 659)
'' وفي آخر شرح المنية بعد نقله ما مر عن الأجناس: ثم الأقدم أفضل ؛ لسبقه حكماً، إلا إذا كان الحادث أقرب إلى بيته، فإنه أفضل حينئذٍ ؛ لسبقه حقيقةً وحكماً، كذا في الواقعات. وذكر في الخانية ومنية المفتي وغيرهما: أن الأقدم أفضل، فإن استويا في القدم فالأقرب''۔

تفسير الآلوسي = روح المعاني (1/ 362)
﴿ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِهَا﴾ أي هدمها وتعطيلها''۔
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201180

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں