بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرائز بانڈز لینا اور اس کے انعام سے کاروبار کرنا/ لوگوں کے عطیات اور صدقات کو فکس ڈپازٹ میں رکھنا


سوال

1- اگر ایک آدمی کا ارادہ ہو کہ پرائز بانڈ لے لے اور اگر لگ جائے تو اس سے کاروبار شروع کرے جس سے لوگوں کو روزگار ملے اور آہستہ آہستہ جو پرائز بانڈ میں انعام کی رقم ملی ہے اس کو کاروبار کے منافع سے نکال کر غریبوں میں تقسیم کر دے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہوگا یا وہ کسی گناہ کا مرتکب ہوگا؟ 

2- آج کل کچھ  ٹرسٹ اس طرح سے چل رہے ہیں کہ لوگوں نے انہیں عطیات دیے وہ اُن عطیات کو فکسڈ ڈپازٹ کرا کے سود کی رقم سے مفت علاج اور تنخواہ دیتے ہیں۔ کیا تنخواہیں  لینا اور ان سے علاج کروانا جائز ہوگا؟

جواب

1- پرائز بانڈ کی خرید وفروخت شرعاً ناجائز ہے، ناجائز کام اچھی نیت سے کیا جائے تب بھی ناجائز رہتاہے؛ اس لیے حلال کاروبار کے ارادے سے پرائز بانڈ خریدنا اور اس کے انعام سے کاروبار کرنا جائز نہیں ہوگا، لاعلمی میں حرام میں مبتلا ہونے والے شخص کو حرام سے نکالنے کے لیے جو حل پیش کیا جائے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان حرام کا ارتکاب کرتا رہےاور صدقہ کرتا رہے۔

2-  اگر کوئی ٹرسٹ لوگوں کے دیے گئے عطیات کو فکسڈ ڈپازٹ میں رکھ کر نفع حاصل کرتا ہے تو اس کے ذمہ داران کا طرزِ عمل درست نہیں، اگر اس ادارے کی غالب آمدنی  کا ذریعہ سود ہی  ہے تو اس میں ملازمت کرکے تنخواہ لینا جائز نہیں، اور اگر غالب آمدنی حلال ذرائع سے ہو تو کام کرنا اور تنخواہ لینا جائز ہوگا۔ اور اگر کوئی مستحقِ زکات شخص ضرورت کے موقع پر اس رقم سے علاج کرائے تو اس کے لیے گنجائش ہوگی، جو مستحقِ زکات نہیں ہیں، ان کے لیے اس رقم سے علاج کرانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200835

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں