بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پبلک ٹرانسپورٹ میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

کیا ہم پبلک ٹرانسپورٹ، ہائی ایس، بس میں سفر کے دوران نماز ادا کر سکتے ہیں؟

جواب

دورانِ سفر  (شہر سے باہر) جس رخ پر سواری جارہی ہو اس رخ پر نفل نماز پڑھنا بلا عذر  مطلقاً جائز ہے، مگر اس سے وہ سواری مراد ہے جس میں چلتے ہوئے قبلہ رخ نماز پڑھنے کی رعایت نہ رکھی جاسکتی ہو، جیسے اونٹ، گھوڑا، موٹر سائیکل، کار ، بس وغیرہ؛ لیکن اگر سواری کشادہ ہو جیسے ریل، ہوائی جہاز وغیرہ، تو اس میں نماز نفل کے لیے بھی قبلہ رخ ہونا ضروری ہوگا؛ اس لیے کہ موجودہ دور کی بڑی سواریوں میں قبلہ رو ہونا ممکن ہے، اس وجہ سے ان میں استقبالِ قبلہ ضروری ہے، جیسے کشتی میں استقبال قبلہ ضروری ہے۔  باقی شہر کی حدود کے اندر  سواری پر نفل پڑھنا جائز نہیں ہے۔

الدرالمختار میں ہے:

"و يتنفل المقيم راكباً خارج المصر ... مومئاً ... إلى أي جهة توجهت دابته". (٢/ ٣٨)

حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح  میں ہے:

"(و يتنفل) أي جاز له التنفل بل ندب له (راكباً خارج المصر) ... ( مؤمياً إلى أي جهة) و يفتتح الصلاة حيث ( توجهت به دابته)". (ص: ٤٠٥)

"وأما في النفل فتجوز علی المحمل والعجلة مطلقاً". (تنویر)

"أي سواء کانت واقفةً أو سائرةً علی القبلة أولا، قادر علی النزول أولا، طرف العجلة علی الدابة أولا". (الشامية ۲؍۴۲۸ بیروت، شامي ۲؍۴۹۱ زکریا، الفتاویٰ الهندیة ۱؍۶۳)

"ومن أراد أن یصلي في سفینة تطوعاً أو فریضةً فعلیه أن یستقبل القبلة، ولا یجوز له أن یصليَ حیث ماکان وجهه". (الفتاویٰ الهندیة ۱؍۶۴، البحر الرائق / باب صلاة المریض ۲؍۲۰۷ رشیدیة، ۲؍۱۱۷کوئٹہ)

البتہ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے قیام ضروری ہے، اگر تن درست آدمی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے تو نماز درست نہ ہوگی، نیز گاڑی میں قبلہ رخ رہنا بھی ممکن نہیں ہے، لہذا گاڑی رکوا کر اتر کر نماز ادا کی جائے، اگر کسی نے چلتی کار، وین وغیرہ میں قیام کے بغیر یا قبلہ کا رخ کیے بغیر فرض نماز ادا کرلی تو اس کو نماز دہرانا لازم ہے, خواہ سفر کی حالت ہو۔

"بس" کے بارے میں ذرا تفصیل ہے کہ اگر شہر سے باہر لمبا سفر ہو اور بس ڈرائیور کہنے کے باوجود بس نہ روکے اور نماز کا وقت نکل رہا ہو، تو دیکھا جائے گا کہ اگر بس کے اندر قبلہ رُخ ہوکر قیام، رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہے تو اس طرح نماز ادا کرے۔ پس اگر بس قبلہ رخ چل رہی ہو یا مخالف سمت جارہی ہو اور سیٹوں کے درمیان فاصلہ ہو تو نماز  قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ  ادا کی جاسکتی ہے، اس صورت میں اگرقیام(کھڑے ہونے) کے لیے سہارا لینا  بھی پڑے تو اس کی اجازت ہوگی، اگرپورے قیام کے دوران سہارا لینا پڑے اور ہاتھ نہ باندھ سکے تب بھی قیام نہ چھوڑے ، سہارا لے کرقیام ، رکوع اورسجدےکے ساتھ نماز ادا کرے۔

اگر بس کے زیادہ حرکت کرنے یاچکرآنے کی وجہ سے قیام نہ کرسکے تواسی راہ داری میں بیٹھ کربس کے فرش(زمین) پرسجدہ کرتے ہوئے نماز اداکرے، البتہ اگر بس شمالاً جنوباً (پاکستان وغیرہ میں) جارہی ہو تو یہ کیا جاسکتاہے کہ سیٹ کی طرف رخ کر کے قیام اور رکوع کیا جائے اور سجدے کے لیے سیٹ پر بیٹھ کر سامنے والی سیٹ پر سجدہ کرلیا جائے۔

البتہ اگر بس میں مذکورہ صورتوں کے مطابق نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً: قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو، یا کار ، ویگن  یا بس کا ڈرائیور گاڑی نہ روکے) اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال "تشبہ بالمصلین" (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرتے ہوئے نماز پڑھ لے، گاڑی سے اتر جانے کے بعد فرض اور وتر کی  قضا کرنا لازم ہوگا۔ 

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الخلاصة: وفتاوی قاضیخان وغیرهما: الأیسر في ید العدو إذا منعه الکافر عن الوضوء والصلاة یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منه أن العذر إن کان من قبل الله تعالی لاتجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة". (البحر الرائق، الکتاب الطهارة، باب التیمم، رشیديه ۱/ ۱۴۲) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200023

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں