پانی بیچنے کا کاروبار کرنا شرعا کیسا ہے؟
ویسے تو پانی ان اشیاء میں سے ہے جن کو اللہ پاک نے ہر ایک کے لیے مباح بنایا ہے، اس کی خرید وفروخت منع ہے، لیکن اگر کوئی شخص پانی کو برتن ، مشکیزہ، ٹینک ،کین وغیرہ میں محفوظ کرلیے تو وہ اس کی ملکیت قرار پاتا ہے۔ اب اس کو اختیار ہے خواہ مفت دے یا مال کے عوض بیچے، اس صورت میں ازروئے شرع اس کی خرید وفروخت کی جاسکتی ہے ۔اگر پانی جمع کیا ہوا نہیں، بلکہ کنویں وغیرہ میں ہے تو کنویں وغیرہ پر آکر پانی لینے والوں کوروکنا شرعاً جائز نہیں ۔جیسا کہ جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے :
عن ابی هریرة ان النبی صلی الله علیه وسلم قال: لا یمنع فضل الماء ۔
ترجمہ:سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زائد پانی کو نہ روکاجائے۔
نیزردالمحتار ج : ۵، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب صاحب البئر لایملک الماء ص: ۶۷ میں ہے:
ان صاحب البئرلایملک الماء۔ ۔ ۔ و هذامادام فی البئر أمااذا اخرجه منها بالاحتیال کمافی السوانی فلاشک فی ملکه له لحیازته له فی الکیزان ثم صبه فی البرک بعد حیازته ۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143812200066
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن