بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پانی میں ڈوبنے والا حکمی شہید ہے


سوال

پانی میں ڈوبنے والے کو شہیدِ حکمی میں رکھنے  کی کیا حکمت ہے؟

جواب

پانی میں ڈوب  کر انتقال کرجانے والے شخص کو حدیث شریف میں شہید کا درجہ دیاگیاہے، اور ا س کی وجہ مظلومانہ اور بے بسی کی موت ہے، یعنی  ایسا شخص اس مصیبت کے مرحلہ سے گزر کر فوت ہوجاتاہے اس لیے اس کا اجر اخروی اعتبار سے شہید کے برابر ہوگا۔ چنانچہ  مشکاۃ شریف میں ہے:

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 شہداء پانچ ہیں (١) طاعون زدہ (٢) پیٹ کی بیماری (یعنی دست اور استسقاء )میں مرنے والا (٣) پانی میں  ڈوب کر مر جانے والا (٤) دیوار یا چھت کے نیچے دب کر مر جانے والا۔ (٥) اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔ (بخاری ومسلم) ''۔

اس حدیث کی شرح میں علامہ نواب قطب الدین خان دہلویؒ لکھتے ہیں :

’’پانی میں ڈوب کر مر جانے والے  اس شخص کو شہادت کا ثواب ملے گا جو بے اختیار و بلا قصد پانی میں ڈوب گیا ہو،  یعنی بارادہ خود پانی میں نہ ڈوبے۔ اس طرح اگر دریا میں کشتی ڈوب جائے یا ٹوٹ جائے تو سب لوگ یا کچھ لوگ دریا میں ڈوب جائیں تو ان میں سے اسی ڈوبنے والے کو شہادت کا ثواب ملے گا جو کسی گناہ و معصیت کے ارادہ سے کشتی میں نہ بیٹھا ہو۔ اس حدیث میں پانچ قسم کے شہیدوں کا تذکرہ کیا گیا۔ لہٰذا اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ حقیقی شہید صرف وہی شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دے۔ شہیدوں کی دیگر قسمیں حکمی ہیں،  یعنی وہ مرنے والے حقیقی شہید تو نہیں ہوتے ہاں اس کی بے کسی و بے بسی کی موت کی بنا پر انہیں شہادت کا ثواب ملتا ہے‘‘۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں