بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پانچ نماز کی فرضیت سے پہلے عبادت کیسے کی جاتی تھی؟ / گزشتہ امتوں کی عبادت کیا تھی؟


سوال

1۔  5 نمازوں کا تحفہ تو حضور کو معراج کی شب ملا تھا تو حضور اس سے پہلے کون سی عبادت فرمایا کرتے تھے؟ اور اسی طرح صحابہ کی عبادت نماز فرض ہونے سے پہلے کیا تھی؟

2. حضور سے پہلے انبیاءِ کرام کی عبادت کیا ہوتی تھی؟

جواب

1۔ اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز کا حکم ابتداءِ اسلام میں آگیا تھا، تاہم پانچ نمازوں کی فرضیت معراج کے موقع پر نازل ہوئی، نماز کی فرضیت کے آنے کے بعد اللہ رب العزت نے نماز کا طریقہ اور اوقاتِ نماز کی تعلیم عملی طور پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ جبرئیل علیہ السلام دی، جس کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم دی، اور اپنی طرح نماز ادا کرنے کا حکم دیا۔

رہی بات کہ معراج سے قبل نماز کا طریقہ کیا تھا؟ اس حوالے سے جمہور کی رائے یہی ہے کہ موجودہ نماز کا ہی طریقہ تھا، تاہم رکعات کی تعداد میں فرق تھا، اور پانچ نمازوں کے بجائے ایک صبح کی نماز (جو طلوعِ شمس سے قبل ادا کی جاتی تھی) اور دوسری شام کی نماز جو غروب کے آس پاس ادا کی جاتی تھی۔ بعض اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ معراج سے قبل نماز کا مروجہ طریقہ نہیں تھا، بلکہ دعا کی ایک شکل تھی، جسے صلاۃ کا نام دیا گیا تھا، تاہم اس رائے کو جمہور محققین نے احادیثِ کثیرہ کی بنا پر رد کیا ہے؛ راجح وہی ہے جو جمہور کی رائے ہے۔

تفصیل کے لیے دیکھیے: التمهيد ، لابن عبد البر (8/35) ، "فتح الباري" لابن رجب (2 / 104)

مسلم شریف میں ہے:

"عن عَائِشَةَ رضي الله عنها قالت : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا وَأَمْسَكَ اللَّهُ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا فِي السَّمَاءِ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ التَّخْفِيفَ، فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ". ( صحیح مسلم، 746)

"شرح العمدة" (4 / 148):

"وكان أول فرض الصلوات الخمس ركعتان، ثم بعد الهجرة أقرت في السفر، وزيدت في الحضر ركعتين، إلا المغرب فعلى حالها".

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کا آغاز جس روایت سے کیا ہے، جو حدیثِ ہرقل کے نام سے مشہور ہے، اس میں ہے کہ جب ہرقل بادشاہ نے ابو سفیان ( جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں جواب میں جو امور بتلا ئے ان میں سے ایک نماز بھی تھی:

"فقال له: (مَاذَا يَأْمُرُكُمْ ؟ ) ( قُلْتُ : يَقُولُ : اعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ وَلَاتُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَاتْرُكُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُكُمْ ؛ وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ )". رواه البخاري (7) ومسلم (1773)

قال الحافظ ابن رجب رحمه الله:

"وهو يدل على أن النبي كان أهم ما يأمر به أمته الصلاة، كما يأمرهم بالصدق والعفاف، واشتُهر ذلك حتى شاع بين الملل المخالفين له في دينه، فإن أبا سفيان كان حين قال ذلك مشركاً، وكان هرقل نصرانياً. ولم يزل منذ بُعث يأمر بالصدق والعفاف، ولم يزل يصلي أيضاً قبل أن تفرض الصلاة." انتهى. ("فتح الباري" ، لابن رجب (2/101).

"وظاهر الحديث أن ذلك الأمر بالصلاة في أول الإسلام كان على الوجوب، وإن اختلفت التفاصيل عما استقر عليه الأمر بعد الإسراء، وهو ـ أيضاً ـ ظاهر الأمر بقيام الليل في سورة المزمل، التي هي من أول ما نزل من القرآن.

وقال الحافظ ابن حجر رحمه الله:

"فائدة:

ذهب جماعة إلى أنه لم يكن قبل الإسراء صلاة مفروضة، إلا ما وقع الأمر به من صلاة الليل من غير تحديد، وذهب الحربي إلى أن الصلاة كانت مفروضةً ركعتين بالغداة وركعتين بالعشي، وذكر الشافعي عن بعض أهل العلم أن صلاة الليل كانت مفروضةً، ثم نسخت بقوله تعالى: {فَاقْرَأُوا مَا تَيَسَّرَ مِنهَ} [المزمل:20]، فصار الفرض قيام بعض الليل، ثم نسخ ذلك بالصلوات الخمس)". انتهى. (فتح الباري (554/1)

"الموسوعة الفقهية" (27 / 52-53):

" أَصْل وُجُوبِ الصَّلاَةِ كَانَ فِي مَكَّةَ فِي أَوَّل الإْسْلاَمِ ؛ لِوُجُودِ الآْيَاتِ الْمَكِّيَّةِ الَّتِي نَزَلَتْ فِي بِدَايَةِ الرِّسَالَةِ تَحُثُّ عَلَيْهَا. وَأَمَّا الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ بِالصُّورَةِ الْمَعْهُودَةِ فَإِنَّهَا فُرِضَتْ لَيْلَةَ الإْسْرَاءِ وَالْمِعْرَاجِ". قال الإمام الشافعي رحمه الله : " سَمِعْت من أَثِقُ بِخَبَرِهِ وَعِلْمِهِ يَذْكُرُ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ فَرْضًا في الصَّلَاةِ ، ثُمَّ نَسَخَهُ بِفَرْضٍ غَيْرِهِ ، ثُمَّ نَسَخَ الثَّانِيَ بِالْفَرْضِ في الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ. قال [ الشافعي ] : كَأَنَّهُ يَعْنِي قَوْلَ اللَّهِ عز وجل: {يا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمْ اللَّيْلَ إلَّا قَلِيلًا نِصْفَهُ أو اُنْقُصْ منه قَلِيلًا} الْآيَةَ ، ثُمَّ نَسَخَهَا في السُّورَةِ معه بِقَوْلِ اللَّهِ جَلَّ ثَنَاؤُهُ: {إنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَى من ثُلُثَيْ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ} إلَى قَوْلِهِ : {فَاقْرَءُوا ما تَيَسَّرَ من الْقُرْآنِ}، فَنَسَخَ قِيَامَ اللَّيْلِ أو نِصْفَهُ أو أَقَلَّ أو أَكْثَرَ بِمَا تَيَسَّرَ. وما أَشْبَهَ ما قال بِمَا قال" . انتهى". ("الأم" (1/68)

  وينظر أيضاً: "الموسوعة الفقهية" (27 / 52-53). "الذخيرة" للقرافي (2 / 8)

"وقد قيل: إن أول ذلك الفرض: ركعتان بالغداة، وركعتان بالعشي. قال قتادة رحمه الله : " كان بدءُ الصيام أمِروا بثلاثة أيام من كل شهر، وركعتين غدوةً، وركعتين عشيةً". ("تفسير الطبري" (3 / 501)

وقال ابن كثير في قوله تعالى :

"{وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ) ق/39: " وقد كان هذا قبل أن تفرض الصلوات الخمس ليلة الإسراء ، وهذه الآية مكية". انتهى. ("تفسير ابن كثير" (3 / 538). وينظر : "البحر الرائق" ، لابن نجيم (1 / 257).

"وأنكر جماعة من أهل العلم قول قتادة ومن وافقه على ذلك، وإن أثبتوا فرض مطلق الصلاة قبل الإسراء". ينظر : التمهيد لابن عبد البر (8/35).

تفسير ابن كثيرمیں ہے:

" لايبعد أن يكون أصل الزكاة الصدقة كان مأموراً به في ابتداء البعثة، كقوله تعالى: ( وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ) الأنعام/ 141 ، فأما الزكاة ذات النصب والمقادير فإنما بَيَّن أمرها بالمدينة، كما أن أصل الصلاة كان واجباً قبل طلوع الشمس وقبل غروبها في ابتداء البعثة، فلما كان ليلة الإسراء قبل الهجرة بسنة ونصف، فرض الله على رسوله صلى الله عليه وسلم الصلوات الخمس، وفصل شروطها وأركانها وما يتعلق بها بعد ذلك، شيئاً فشيئاً" انتهى . ("تفسير ابن كثير" (7 / 164)

قال الحافظ ابن كثير رحمه الله:

"ثم نزل جبريل عليه السلام وعلم النبي صلى الله عليه وسلم أوقات الصلاة، فروى البخاري (522) ومسلم (611) عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ فَأَخْبَرَهُ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا وَهُوَ بِالْكُوفَةِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ : مَا هَذَا يَا مُغِيرَةُ؟ أَلَيْسَ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ جِبْرِيلَ نَزَلَ فَصَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: ( بِهَذَا أُمِرْت)؟ فَقَالَ عُمَرُ لِعُرْوَةَ: انْظُرْ مَا تُحَدِّثُ يَا عُرْوَةُ؟ أَوَ إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام هُوَ أَقَامَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقْتَ الصَّلَاةِ؟ فَقَالَ عُرْوَةُ: كَذَلِكَ كَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ. وروى النسائي (526) عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ رضي الله عنهما قَالَ: جَاءَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ زَالَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ: قُمْ يَا مُحَمَّدُ! فَصَلِّ الظُّهْرَ حِينَ مَالَتْ الشَّمْسُ، ثُمَّ مَكَثَ حَتَّى إِذَا كَانَ فَيْءُ الرَّجُلِ مِثْلَهُ جَاءَهُ لِلْعَصْرِ، فَقَالَ: قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ الْعَصْرَ، ثُمَّ مَكَثَ حَتَّى إِذَا غَابَتْ الشَّمْسُ جَاءَهُ فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّ الْمَغْرِبَ، فَقَامَ فَصَلَّاهَا حِينَ غَابَتْ الشَّمْسُ سَوَاءً، ثُمَّ مَكَثَ حَتَّى إِذَا ذَهَبَ الشَّفَقُ جَاءَهُ فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّ الْعِشَاءَ، فَقَامَ فَصَلَّاهَا ... الحديث، وفيه : فَقَالَ – يعني جبريل - : ( مَا بَيْنَ هَذَيْنِ وَقْتٌ كُلُّهُ )"

2. رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے پہلے جو انبیاء علیہم السلام گزرے  ہیں ان کی تعلیمات میں بھی نماز  کا تذکرہ ملتا ہے، اور ان کی نماز بھی رکوع و سجود پر مشتمل تھی، البتہ ان کی نمازوں میں  کیا شرائط ، و ارکان و واجبات تھے، اس کی تفصیل نہیں ملتی، نیز من حیث الامہ ان میں سے ہر ایک کی امت پر کتنی نمازیں فرض تھیں اس کی تفصیل بھی نہیں ملتی، البتہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے شرح معانی الآثار میں  ایک روایت نقل فرمائی ہے کہ:  جب حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ فجر کی وقت قبول کی گئی تو انہوں نے دو رکعات ادا فرمائیں، تو یہ صبح کی نماز قرار پائی، حضرت اسحاق علیہ السلام کی قربانی ظہر  کے وقت پیش کی گئی تو انہوں نے چار رکعات ادا فرمائیں تو یہ ظہر  قرار پائی، حضرت عزیر علیہ السلام کو جب دوبارہ اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا کہ کتنا عرصہ موت کی حالت میں سوئے رہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک دن، پھر ان کی نگاہ سورج پر پڑی، تو کہا: دن کا کچھ حصہ، پھر  انہوں نے چار رکعات ادا فرمائیں، تو یہ عصر قرار پائی، اور حضرت داؤد علیہ السلام کو کسی چوک پر مغفرت کا پروانہ مغرب کے وقت ملا تو آپ کھڑے ہوئے اور چار رکعات ادا کرنے کا قصد کیا، مگر تیسری رکعت میں خلافِ اولی کے ارتکاب کی وجہ سے احساسِ ندامت اور رونے  کی شدت کی وجہ سے چوتھی رکعت پڑھنے سے عاجز آگئے، یوں یہ مغرب کی نماز قرار پائی،  اور سب سے پہلے عشاء کی نماز جس مبارک ذات نے ادا فرمائی وہ نبی آخر الزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔

اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قرآنِ مجید میں نقل فرمائی ہے جس میں بھی نماز کا ذکر ملتا ہے:

{ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ} [إبراهيم / 37]

ترجمہ: اے رب میں نے بسایا ہے اپنی ایک اولاد کو میدان میں کہ جہاں کھیتی نہیں تیرے محترم گھر کے پاس، اے رب ہمارے تاکہ قائم رکھیں نماز کو ۔۔۔الخ

نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی دعا ہے: {رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ} [ إبراهيم / 40]

ترجمہ: اے رب میرے!  کر مجھ کو کہ قائم رکھوں نماز اور میری اولاد میں سے بھی، اے رب میرے! اور قبول کر میری دعا۔

اللہ رب العزت نے حضرت موسی و ہارون علیہما السلام کو جو تشریعی احکامات عطا فرمائے اس میں بھی نماز قائم کرنے کا حکم تھا:

{وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ} [يونس / 87]

ترجمہ: اور حکم بھیجا ہم نے موسیٰ کو اور اس کے بھائی کو کہ مقرر کرو اپنی قوم کے واسطے مصر میں سے گھر، اور بناؤ اپنے گھر قبلہ رو، اور قائم کرو نماز. اور خوش خبری دے ایمان والوں کو۔ 

 اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ ہونے والے پہلے مکالمہ کا ذکر فرمایا ہے، اس میں بھی نماز کی تعلیم ملتی ہے:

{وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا} [مريم / 31]

ترجمہ: اور بنایا مجھ کو برکت والا جس جگہ میں ہوں اور تاکید کی مجھ کو نماز کی اور زکات  کی جب تک میں رہوں زندہ۔

حضرت زکریا علیہ السلام  کے حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد ہے:

{فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ} [آل عمران / 39]

ترجمہ: پھر اس کو آواز دی فرشتوں نے جب وہ کھڑے تھے نماز میں حجرے کے اندر ۔۔۔ الخ

اللہ رب العزت نے تمام انبیاء علیہم ا لسلام کے بارے میں ارشاد فرمایا:

 {أُولَئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِنْ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا} [مريم/58]

ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جن پر انعام کیا اللہ نے پیغمبروں میں آدم کی اولاد میں اور ان میں جن کو سوار کرلیا ہم نے نوح کے ساتھ اور ابراہیم کی اولاد میں اور اسرائیل کی اور ان میں جن کو ہم نے ہدایت کی اور پسند کیا جب ان کو سنائے آیتیں رحمن کی گرتے ہیں سجدہ میں اور روتے ہوئے۔

انبیاء علیہم السلام کے گزرجانے کے بعد ان کی امتوں کی بربادی کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے :

{ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا  إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا} [مريم/ 59 – 60]

ترجمہ: پھر ان کی جگہ آئے ناخلف، کھو بیٹھے نماز، اور پیچھے پڑگئے مزوں کے، سو آگے دیکھ لیں گے گم راہی کو، مگر جس نے توبہ کی اور یقین لایا اور کی نیکی سو وہ لوگ جائیں گے بہشت میں اور ان کا حق ضائع نہیں ہوگا۔

ارشاد باری تعالی ہے:

{وَاِذْ جَعَلْنَا الْبیت مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ؕ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهِيْمَ مُصَلًّى‌ ؕ وَعَهِدْنَآ اِلٰى اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّآئِفِيْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ}[البقرة / 125]

ترجمہ: اور جب مقرر کیا ہم نے خانہ کعبہ کو اجتماع کی جگہ لوگوں کے واسطے اور جگہ امن کی، اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ اور حکم کیا ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو کہ پاک رکھو میرے گھر کو واسطے طواف کرنے والوں کے اور اعتکاف کرنے والوں کے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے۔

ارشاد ہے:

{يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ} [آل عمران / 43]

ترجمہ: اے مریم بندگی کر اپنے رب کی اور سجدہ کر اور رکوع کر ساتھ رکوع کرنے والوں کے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"(2375) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: (مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي ، عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ). 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ ... وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنْ الْأَنْبِيَاءِ فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّي ، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ ، وَإِذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام قَائِمٌ يُصَلِّي أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ ، وَإِذَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام قَائِمٌ يُصَلِّي أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُكُمْ - يَعْنِي نَفْسَهُ - فَحَانَتْ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ الصَّلَاةِ قَالَ قَائِلٌ : يَا مُحَمَّدُ هَذَا مَالِكٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ ، فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ )".

شرح معانی الآثار للطحاوی میں ہے:

"1046 - مَا حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ جَعْفَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ بَحْرَ بْنَ الْحَكَمِ الْكَيْسَانِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ عُبَيْدَ اللهِ بْنَ مُحَمَّدٍ، عن عَائِشَةَ يَقُولُ: " إِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ , لَمَا تِيبَ عَلَيْهِ عِنْدَ الْفَجْرِ، صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَصَارَتِ الصُّبْحَ، وَفُدِيَ إِسْحَاقُ عِنْدَ الظُّهْرِ فَصَلَّى إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَرْبَعًا، فَصَارَتِ الظُّهْرَ، وَبُعِثَ عُزَيْرٌ فَقِيلَ لَهُ كَمْ لَبِثْتَ؟ فَقَالَ: يَوْمًا، فَرَأَى الشَّمْسَ فَقَالَ: أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ الْعَصْرَ" وَقَدْ قِيلَ: غُفِرَ لِعُزَيْرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَغُفِرَ لِدَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَغْرِبِ، فَقَامَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَجُهِدَ فَجَلَسَ فِي الثَّالِثَةِ، فَصَارَتِ الْمَغْرِبُ ثَلَاثًا. وَأَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". ( بَابُ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى أَيُّ الصَّلَوَاتِ؟، ١ / ١٧٥، رقم: ١٠٤٦)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

"وَأَخْرَجَ الطَّحَاوِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ آدَمَ لَمَّا تِيبَ عَلَيْهِ عِنْدَ الْفَجْرِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَصَارَتِ الصُّبْحَ، وَفُدِيَ إِسْحَاقُ عِنْدَ الظُّهْرِ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ الظُّهْرَ، وَبُعِثَ عُزَيْرٌ فَقِيلَ لَهُ: كَمْ لَبِثْتَ؟ قَالَ: يَوْمًا فَرَأَى الشَّمْسَ فَقَالَ: أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ الْعَصْرَ، وَغُفِرَ لِدَاوُدَ عِنْدَ الْمَغْرِبِ فَقَامَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَجُهِدَ فِي الثَّالِثَةِ أَيْ: تَعِبَ فِيهَا عَنِ الْإِتْيَانِ بِالرَّابِعَةِ لِشِدَّةٍ مَا حَصَلَ لَهُ مِنَ الْبُكَاءِ عَلَى مَا اقْتَرَفَهُ، مِمَّا هُوَ خِلَافُ الْأَوْلَى بِهِ، فَصَارَتِ الْمَغْرِبُ ثَلَاثًا، وَأَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخَرَ نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَبِهَذَا وَمَا قَرَّرْتُهُ فِي (هَذَا وَقْتُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِكَ) ، يَنْدَفِعُ قَوْلُ الْبَيْضَاوِيِّ تَوْفِيقًا بَيْنَ هَذَا وَبَيْنَ خَبَرِ أَبِي دَاوُدَ وَغَيْرِهِ الْمَذْكُورِ فِي الْعِشَاءِ: أَنَّ الْعِشَاءَ كَانَتِ الرُّسُلُ تُصَلِّيهَا نَافِلَةً لَهُمْ، وَلَمْ تُكْتَبْ عَلَى أُمَمِهِمْ كَالتَّهَجُّدِ، فَإِنَّهُ وَجَبَ عَلَى نَبِيِّنَا وَلَمْ يَجِبْ عَلَيْنَا، أَوْ يُجْعَلْ هَذَا إِشَارَةً إِلَى وَقْتِ الْإِسْفَارِ، فَإِنَّهُ قَدِ اشْتَرَكَ فِيهِ جَمِيعُ الْأَنْبِيَاءِ الْمَاضِيَةِ وَالْأُمَمِ الدَّارِجَةِ اهـ. وَالْحَقُّ أَنَّ الْحَقَّ مَعَ الْقَاضِي، فَإِنَّ الْحَدِيثَ الْأَوَّلَ لَا دَلَالَةَ عَلَى نَفْيِهِ لِلْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّمَا وَقَعَ نَفْيُهُ عَنِ الْأُمَمِ، وَالْحَدِيثُ الثَّانِي دَالٌّ عَلَى أَنَّ نَبِيَّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ مَعَ أُمَّتِهِ، فَلَا يُنَافِيهِ أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ صَلَّوْهَا، وَغَايَتُهُ أَنَّهُ مَا ذُكِرَ فِيهِ أَوَّلُ مَنْ شَرَّعَ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ كُلَّ نَبِيٍّ شَرَّعَ صَلَاةً تَبِعَهُ غَيْرُهُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَلَا دَلَالَةَ فِيهِ عَلَى التَّوْزِيعِ الَّذِي تَوَهَّمَهُ مَعَ أَنَّ رِوَايَةَ الطَّحَاوِيِّ لَا تُقَاوِمُ رِوَايَةَ أَبِي دَاوُدَ وَغَيْرِهِ الْمُصَرِّحِ فِي الْمَقْصُودِوَأَخْرَجَ الطَّحَاوِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ آدَمَ لَمَّا تِيبَ عَلَيْهِ عِنْدَ الْفَجْرِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَصَارَتِ الصُّبْحَ، وَفُدِيَ إِسْحَاقُ عِنْدَ الظُّهْرِ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ الظُّهْرَ، وَبُعِثَ عُزَيْرٌ فَقِيلَ لَهُ: كَمْ لَبِثْتَ؟ قَالَ: يَوْمًا فَرَأَى الشَّمْسَ فَقَالَ: أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ الْعَصْرَ، وَغُفِرَ لِدَاوُدَ عِنْدَ الْمَغْرِبِ فَقَامَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَجُهِدَ فِي الثَّالِثَةِ أَيْ: تَعِبَ فِيهَا عَنِ الْإِتْيَانِ بِالرَّابِعَةِ لِشِدَّةٍ مَا حَصَلَ لَهُ مِنَ الْبُكَاءِ عَلَى مَا اقْتَرَفَهُ، مِمَّا هُوَ خِلَافُ الْأَوْلَى بِهِ، فَصَارَتِ الْمَغْرِبُ ثَلَاثًا، وَأَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخَرَ نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَبِهَذَا وَمَا قَرَّرْتُهُ فِي (هَذَا وَقْتُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِكَ) ، يَنْدَفِعُ قَوْلُ الْبَيْضَاوِيِّ تَوْفِيقًا بَيْنَ هَذَا وَبَيْنَ خَبَرِ أَبِي دَاوُدَ وَغَيْرِهِ الْمَذْكُورِ فِي الْعِشَاءِ: أَنَّ الْعِشَاءَ كَانَتِ الرُّسُلُ تُصَلِّيهَا نَافِلَةً لَهُمْ، وَلَمْ تُكْتَبْ عَلَى أُمَمِهِمْ كَالتَّهَجُّدِ، فَإِنَّهُ وَجَبَ عَلَى نَبِيِّنَا وَلَمْ يَجِبْ عَلَيْنَا، أَوْ يُجْعَلْ هَذَا إِشَارَةً إِلَى وَقْتِ الْإِسْفَارِ، فَإِنَّهُ قَدِ اشْتَرَكَ فِيهِ جَمِيعُ الْأَنْبِيَاءِ الْمَاضِيَةِ وَالْأُمَمِ الدَّارِجَةِ اهـ. وَالْحَقُّ أَنَّ الْحَقَّ مَعَ الْقَاضِي، فَإِنَّ الْحَدِيثَ الْأَوَّلَ لَا دَلَالَةَ عَلَى نَفْيِهِ لِلْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّمَا وَقَعَ نَفْيُهُ عَنِ الْأُمَمِ، وَالْحَدِيثُ الثَّانِي دَالٌّ عَلَى أَنَّ نَبِيَّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ مَعَ أُمَّتِهِ، فَلَا يُنَافِيهِ أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ صَلَّوْهَا، وَغَايَتُهُ أَنَّهُ مَا ذُكِرَ فِيهِ أَوَّلُ مَنْ شَرَّعَ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ كُلَّ نَبِيٍّ شَرَّعَ صَلَاةً تَبِعَهُ غَيْرُهُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَلَا دَلَالَةَ فِيهِ عَلَى التَّوْزِيعِ الَّذِي تَوَهَّمَهُ مَعَ أَنَّ رِوَايَةَ الطَّحَاوِيِّ لَا تُقَاوِمُ رِوَايَةَ أَبِي دَاوُدَ وَغَيْرِهِ الْمُصَرِّحِ فِي الْمَقْصُودِ". ( كِتَابُ الصَّلَاةِ، بَابُ الْمَوَاقِيتِ، الْفَصْلُ الثَّانِي، رقم: ٥٨٣ ، ٢ / ٥٢١).فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200616

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں