بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پانچ سال کی بیماری کے بعد انتقال ہوا تو نمازوں کا حکم


سوال

میرے والد صاحب کا کچھ دن پہلے رضائے الہی سے انتقال ہوا، گزشتہ تقریبًا پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ سخت بیمار ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹروک  لگنے کی وجہ سے ان کی دماغی حالت بھی ٹھیک  نہیں تھی، جس کی وجہ سے وہ اس عرصے میں نماز پڑھنے سے قطعی طور پر معذور رہے ۔  اب سوال یہ ہے کہ کیا اس عرصے میں ان سے قضا ہونے والی نمازیں ذمے  سے ساقط ہیں یا باقی رہیں گی؟ اگر باقی ہیں تو کیا اب ان تمام قضا نمازوں کا فدیہ دینا ہوگا یا کوئی اور طریقہ ہے؟ برائے مہربانی ذرا تفصیل سے رہنمائی فرمائیے!

جواب

اگر  ایک  دن سے زائد کسی مریض کی ایسی حالت ہو کہ جس میں وہ صرف سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھنے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو جب تک اس مریض کی یہ بیماری رہے گی، اس وقت تک ان دنوں کی نمازیں اس پر سے ساقط ہوجائیں گی۔ اگر اسی بیماری میں مریض کو موت آجائے تو اس کے ذمے ان دنوں کی نمازیں نہیں ہوتیں، لہذا ان نمازوں کا فدیہ بھی نہیں دیا جائے گا۔ البتہ اگر مریض کو بیماری کے بعد اتنا افاقہ ہوجائے کہ وہ اشارے سے نماز پڑھنے پر قادر ہوجائے اور وہ نماز نہ پڑھے تو ان دنوں کی نمازوں کی قضا  اس کے  ذمے  واجب ہوتی  ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر آپ کے والد کی بیماری کے دنوں میں کوئی دن بھی ایسا نہ ہو جس میں ان کو اشارے سے نماز پڑھنے پر قدرت تھی اور اسی حالت میں ان کی وفات ہوگئی تو آپ کے والد کے ذمے  بیماری کے ان دنوں کی کوئی نماز نہیں تھی، لہٰذا ایسی صورت میں فدیہ دینے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن اگر ان دنوں میں کچھ دن ایسے گزرے ہوں جن میں اتنا افاقہ ہوا ہو کہ سر کے اشارے سے نماز پڑھ سکتے ہوں لیکن پڑھی نہ ہو، تو ان دنوں کی نمازوں کا حساب کرکے اگر ان کا فدیہ ادا کردیا جائے تو اللہ سے امید ہے کہ ان نمازوں کے بارےمیں ان سے پوچھ نہیں ہوگی۔

اگر آپ کے والد نے فدیہ دینے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر ایک تہائی ترکہ سے وصیت کے مطابق فدیہ ادا کرنا لازم ہوگا اور اگر وصیت نہ کی ہو تو ورثاء کے ذمے فدیہ ادا کرنا لازم نہ ہوگا، البتہ اگر ورثا اپنی خوشی سے ادا کردیں تو یہ مرحوم والد کے ساتھ  نیکی  ہوگی۔

ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے  ساتھ  چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے  فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریبًا پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی قیمت ہے۔

صدقۂ فطر کی مقدارگیہوں کے حساب سے ایک کلو  چھ سو پینتیس  گرام آٹھ سو بہتر  ملی گرام ہوتی ہے، اور مزید احتیاط کے لیے بہتر ہے کہ ایک کلو  سات سو پچاس (۷۵۰)گرام دے دیا جائے، یعنی  پونے  دو کلو گیہوں یا اس کی قیمت دے دی جائے،اگر کو ئی اس سے زیادہ دے دے تو جائز ہے؛ البتہ واجب مقدار یہ ہی ہے اور یہ مقدار گیہوں کے حساب سے ہے اور اگر کوئی جویا کھجور دینا چاہے، تو اس کی مقدار گیہوں کی دوگنی یعنی ساڑھے تین کلو ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72):

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة.
(قوله: وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها، وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله عليه الصلاة والسلام: «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه». وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.
(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك؛ لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك، إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعاً؛ لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة؛ لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطاً؛ لاحتمال كون النص فيه معلولاً بالعجز، فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولاً تكون الفدية براً مبتدأً يصلح ماحياً للسيئات، فكان فيها شبهة، كما إذا لم يوص بفدية الصوم، فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200249

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں