بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پائنچے موڑکر اور آستین چڑھا کر نماز پڑھنے کاحکم


سوال

1- مرد کے  لیے حکم ہے کہ ٹخنوں سے اوپر شلوار رکھے۔ اب نماز کے وقت اگر مرد نے پینٹ شرٹ پہنی ہو تو اگر وہ پینٹ کو موڑتا ہے تو کیا نماز ہو جاتی ہے یا نماز مکروہ ہوجاتی ہے؟

2- اسی طرح آستینیں موڑنا بھی صحیح ہے نماز کے درمیان یا نہیں؟

جواب

1- شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے رکھنا  بقصدِ تکبر حرام، اور بلاقصدِ تکبر مکروہِ تحریمی (ناجائز)ہے، اگر غیر ارادی طور پر کبھی شلوار کا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹک جائے تو  معاف ہے، لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنا یا شلوار ہی ایسی بنانا کہ پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹکتا رہے یہ ہر گز جائز نہیں ہے، اور یہ متکبرین کی علامت ہے، اور جب یہ فعل ہی متکبرین کی علامت ہے  تو پھر یہ کہہ کر ٹخنوں کو چھپانا کہ نیت میں تکبر نہیں تھا ، شرعاً درست نہیں ہے، اور ٹخنوں کو ڈھانکنا نماز اور غیر نماز ہر حال میں ممنوع ہے، اور نماز میں اس کی حرمت مزید شدید ہوجاتی ہے،  لہذا ایسا لباس ہی نہ بنایا جائے جس میں ٹخنے ڈھکتے ہوں، فقہاءِ کرام نے ایسا لباس سلوانے کو مکروہ لکھا ہے جس میں مرد کے ٹخنے چھپ جاتے ہوں۔اور ایسا لباس ہونے کی صورت میں  نماز شروع کرنے سے پہلےشلوار یا پینٹ وغیرہ کو اوپر  سے موڑ لینا چاہیے، ورنہ کم ازکم نیچے سے موڑلے۔ اس طرح کرنے سے اس گناہ سے نجات مل جائے گی جو شلوار وغیرہ کو نماز کے اندر ایسے ہی چھوڑ دینے سے ہوتا۔

  شلوار یا پینٹ پاؤں کی جانب سے موڑنے میں لباس کی ہیئت تبدیل ہونے سے جو کراہت آتی ہے وہ کراہتِ تنزیہی ہے، جب کہ ٹخنے ڈھانپنا مکروہ تحریمی (ناجائز) ہے۔لہٰذا اگر کسی کی شلوار وغیرہ لمبی ہو تو  اسے اوپر یا نیچے کی جانب سے موڑ دینا چاہیے، کیوں کہ ٹخنے ڈھکنے کی کراہت تحریمی اور شدید ہے، جو حکم کے اعتبار سے ناجائز ہے، اس کےمقابلے میں شلوار یا پینٹ کو نیچے کی جانب سے فولڈ کرنے کی کراہت کم ہے، اس لیےشلوار یا پینٹ لمبی ہو تو نماز سے پہلے اسے فولڈ کرلینا چاہیے۔

"إن الله  تعالی لایقبل صلاة رجل مسبل". (سنن أبي داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء في إسبال الإزار، النسخة الهندیة۲/۵۶۵، بیت الأفکار رقم:۴۰۸۶)

"عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ صلی الله علیه وسلم: ما أسفل من الکعبین  من الإزار في النار". (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب ما أسفل من الکعبین ففي النار،۲/۸۶۱، رقم:۵۵۵۹)

"عن أبي ذر عن النبي صلی الله  علیه وسلم قال: ثلاثة لایکلمهم الله یوم القیامة: المنان الذي لایعطي شیئاً إلامنّه، والمنفق سلعته بالحلف والفاجر، والمسبل إزاره". (الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم  إسبال الإزار، النسخة الهندیة۱/۷۱، بیت الأفکار رقم:۱۰۶)

"وینبغي أن یکون الإزار فوق الکعبین ..." الخ (الفتاوى الهندیة، کتاب الکراهية، الباب التاسع في اللبس، زکریا۵/۳۳۳)  

’’مرقاة المفا تیح‘‘:

"ولایجوز الإسبال تحت الکعبین إن کان للخیلاء، وقد نص الشافعی علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء ؛ لدلالة ظواهر الأحادیث علیها ، فإن کان للخیلاء فهو ممنوع منع تحریم". (۸/۱۹۸، کتاب اللباس) 

2- آستین چڑھا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگر رکعت نکل جانے کے خوف سے آستین نیچے کیے بغیر  جماعت میں شامل ہوگیا اور کہنیاں کھلی رہ گئیں تو نماز کے دوران عملِ  کثیر کے بغیر آستین نیچے کرلینی چاہیے،  اور اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ ایک ہی رکن میں دونوں آستینیں نیچے نہ کرے، بلکہ مختلف ارکان کی ادائیگی میں حتی الامکان کم سے کم عمل کے ذریعے نیچے کردے، تو عملِ  قلیل کی وجہ سے نماز پر اثر نہیں پڑے گا۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (1 / 640):
"(قوله :كمشمر كم أو ذيل ) أي كما لو دخل في الصلاة وهو مشمر كمه أو ذيله وأشار بذلك إلى أن الكراهة لاتختص بالكف وهو في الصلاة، كما أفاده في شرح المنية، لكن قال في القنية: واختلف فيمن صلى وقد شمر كميه لعمل كان يعمله قبل الصلاة أو هيئته ذلك ا هـ ومثله ما لو شمر للوضوء ثم عجل لإدراك الركعة مع الإمام، وإذا دخل في الصلاة كذلك، وقلنا بالكراهة، فهل الأفضل إرخاء كميه فيها بعمل قليل أو تركهما؟ لم أره، والأظهر الأول؛ بدليل قوله الآتي: ولو سقطت قلنسوته فإعادتها أفضل، تأمل". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں