بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیٹو بنوانا اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا


سوال

اگر بچپن میں کسی نے سوئی سے اپنے جسم پر اور خاص طور پر پیشانی پر خال یعنی گودا ہوا نقش وغیرہ لگوایا ہو Tattoo تو  اس کے لیے اسلام میں کیا حکم ہے؟ آیا اس کے ساتھ نماز ہوسکتی ہے یا نہیں؟ گناہ ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جسم کے کسی حصہ پر ٹیٹو بنوانا شرعاً حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور ٹیٹو بنانے اور بنوانے والوں پر اللہ رب العزت کی جانب سے لعنت کی گئی ہے، لہذا جسم پر ٹیٹو بنانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے، اور اگر کسی نے جسم پر ٹیٹو بنوا رکھے ہوں تو (اگرچہ بچپن میں بنوائے ہوں، اب بلوغت کے بعد چوں کہ مکلف ہوچکاہے) اسے چاہیے کہ وہ اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ کرے، اور اگر اسے زائل کرنا ممکن ہو تو  بذریعہ علاج جسم سے اسے ختم کروائے۔

البتہ  ٹیٹو کے ساتھ نماز ہوجاتی ہے ، البتہ جان دار کی شکل ہونے کی صورت میں  نماز کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گی۔

 صحیح البخاری میں ہے:

"عن ابن عمر -رضي الله عنه- عن النبي صلّى الله عليه وسلّم، حيث قال: لعَنَ اللَّهُ الواصلةَ والمُستوصِلةَ، والواشمةَ والمُستوشِمة". ( رواه البخاري، عن عبد الله بن عمر، الرقم: 5937)

"المنهاج شرح صحیح مسلم بن الحجاجمیں ہے:

"الوشم وهي أن تغرز إبرة أو مسلة أو نحوهما في ظهر الکف أو المعصم أو الشفة أو غیر ذلک من بدن المرأة حتی یسیل الدم، ثم تحشو ذلک الموضع بالکحل أو النورة فیخضر ... فإن طلبت فعل ذلک بها فهي مستوشمة، وهو حرام علی الفاعلة والمفعول بها باختیارها والطالبة له ... وسواء في هذا کله الرجل والمرأة . والله أعلم". (فتح الباري ۷/۲۳۱، کتاب اللباس والزینة ، باب تحریم فعل الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة ، تحت الرقم :۲۱۲۵)

"إلا بالجرح فإن خاف منه التلف، أو فوات عضو، أو منفعة عضو، أو حدوث شين فاحش في عضو ظاهر، لم تجب إزالته وتكفي التوبة في هذه الحالة، وإن لم يخف شيئاً من ذلك ونحوه لزمه إزالته ويعصي بتأخيره، وسواء في ذلك كله الرجل والمرأة". ( ١٠/ ٣٧٢)

"يستفاد مما مرّ حكم الوشم في نحو اليد، وهو أنه كالاختضاب أو الصبغ المتنجس؛ لأنه إذا غرزت اليد أو الشفة مثلاً بإبرة، ثمّ حشي محلها بكحل أو نيلة ليخضر، تنجس الكحل بالدم، فإذا جمد الدم، والتأم الجرح بقي محله أخضر، فإذا غسل طهر؛ لأنه أثر يشق زواله؛ لأنه لايزول إلا بسلخ الجلد أو جرحه، فإذا كان لايكلف بإزالة الأثر الذي يزول بماء حار أو صابون فعدم التكليف هنا أولى. وقد صرح به في القنية فقال: ولو اتخذ في يده وشماً لايلزمه السلخ ..." الخ (ردالمحتار على الدر المختار، كتاب الطهارة، باب الأنجاس، مطلب في حكم الوشم، (1/330) ط: سعيد)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200971

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں