بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹی وی  کا کاروبار کرنے کا حکم


سوال

ٹی وی  کا کاروبار کرنے کا کیا حکم ہے؟

اگر کوئی مجبوری میں بیچے تو اس سے کمائی ہوئی رقم کا کیا حکم ہے؟

جواب

ٹی وی  کا استعمال جان دار کی تصاویر پر مشتمل پروگراموں کے دیکھنے میں ہوتا ہے اور ان  پروگراموں میں  فحش تصاویرنہ بھی ہوں تب بھی بوجہ تصویر ہونے کے از روئے شرع ان کا دیکھنا اور دکھانا حرام ہے، جب کہ ٹی وی پر آنے والے اکثر پروگرام فحاشی، عریانیت اور بے حیائی پر مشتمل ہوتے ہیں، لہٰذا  نہ تو ٹی وی کو گھر میں رکھنا جائز ہے اور نہ ہی ٹی وی کی خرید و فروخت اور کاروبار  جائز ہے ، نیز اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال نہیں۔

اگر کوئی آدمی خرید چکا ہو اور اب اسے ٹی وی دیکھنے کے گناہ کا احساس ہوا ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس گناہ کبیرہ سے توبہ کی توفیق دے دی ہو تو اب اگر وہ اس گناہ سے جان چھڑانے کے لیے  اس ٹی وی کو کسی اور پر بیچے گا تو وہ دوسرا شخص اس گناہ میں مبتلا ہوگا اور یہ پہلا شخص اس کے اس گناہ میں ذریعہ بننے کی وجہ سے معاون اور مددگار ہوگا، حال آں کہ گناہ کے کاموں میں معاون اور ذریعہ بننا جائز نہیں ہے۔

 چناں چہ اسے چاہیے کہ بجائے ٹی وی کو آگے کسی دوسرے پر بیچنے کے  وہ اس معصیت کے آلہ کو توڑ پھوڑ کر ضائع کردے، یا  ٹی وی کوکھول کر تمام پرزے الگ الگ کردے، پھر جو پرزے کسی مباح کام میں استعمال ہو سکتے ہوں تو ان پرزوں کو نکال کر الگ سے ان کو بیچنا جائز ہے۔ بصورتِ مجبوری جس شخص سے یہ ٹی وی خریدا تھا اس کو قیمتِ خرید یا اس سے کم پر واپس بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن قیمت خرید سے زیادہ پر بیچ کر منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا، اسی طرح قیمتِ خرید پر کسی کافر کو بھی فروخت کر نا جائز  ہے کیوں کہ وہ فرعی مسائل کا مکلف نہیں ہے۔

اگرصرف   اسکرین ہو جو کہ ان پروگراموں کے علاوہ  کسی میں استعمال ہوسکتی ہو تو ایسے آدمی پر اس کو فروخت کرنا جائز ہوگا جس کے بارے میں یہ بات معلوم ہو کہ وہ اسے کسی جائز کام میں استعمال کرے گا، (مثلًا:  ہوائی اڈوں (ایئر پورٹ) وغیرہ پر سامان کی چیکنگ اور ہوائی جہاز کے نظام الاوقات بتلانے یا مختلف اعلانات کرنے کے لیے استعمال کرنا،  اسٹاک ایکسچینج میں حصص  کی تفصیلات وغیرہ دکھانے کے لیے استعمال کرنا) اس کی گنجائش ہے۔
جن صورتوں میں ٹی وی بیچنا منع لکھا گیا ہے، ان صورتوں میں بیچنے کی صورت میں اس  رقم کا استعمال کرنا بھی جائز نہیں  ہے، اس رقم کو صدقہ کردیا جائے، اسی طرح قیمتِ فروخت سے زیادہ پر بیچنے کی صورت میں بھی اضافی رقم کو صدقہ کردیا جائے، اور بیچنے کی جو جائز صورتیں لکھیں گئی ہیں ان میں اس رقم کا استعمال کرنا بھی جائز ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 391):
"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمراً)؛ لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره، وقيل: يكره لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات: أن قوله: ممن أي من كافر، أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما، زاد القهستاني معزياً للخانية: أنه يكره بالاتفاق.
(بخلاف بيع أمرد ممن يلوط به وبيع سلاح من أهل الفتنة)؛ لأن المعصية تقوم بعينه، ثم الكراهة في مسألة الأمرد مصرح بها في بيوع الخانية وغيرها، واعتمده المصنف على خلاف ما في الزيلعي والعيني، وإن أقره المصنف في باب البغاة. قلت: وقدمنا ثمة معزياً للنهر أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريماً وإلا فتنزيهاً. فليحفظ توفيقاً.
 (قوله: وجاز) أي عنده لا عندهما بيع عصير عنب أي معصوره المستخرج منه، فلا يكره بيع العنب والكرم منه بلا خلاف، كما في المحيط. لكن في بيع الخزانة: أن بيع العنب على الخلاف، قهستاني. (قوله: ممن يعلم) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف، قهستاني. (قوله: لا تقوم بعينه إلخ) يؤخذ منه أن المراد بما لا تقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية، وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح، ويأتي تمام الكلام عليه، (قوله: أما بيعه من المسلم فيكره)؛ لأنه إعانة على المعصية، قهستاني عن الجواهر.
أقول: وهو خلاف إطلاق المتون وتعليل الشروح بما مر وقال ط: وفيه أنه لا يظهر إلا على قول من قال إن الكفار غير مخاطبين بفروع الشريعة والأصح خطابهم وعليه فيكون إعانة على المعصية، فلا فرق بين المسلم والكافر في بيع العصير منهما فتدبر اهـ ولا يرد هذا على الإطلاق والتعليل المار.
(قوله: على خلاف ما في الزيلعي والعيني) ومثله في النهاية والكفاية عن إجارات الإمام السرخسي (قوله: معزياً للنهر) قال فيه من باب البغاة: وعلم من هذا أنه لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به كبيع الجارية المغنية والكبش النطوح والحمامة الطيارة والعصير والخشب ممن يتخذ منه المعازف، وأما في بيوع الخانية من أنه يكره بيع الأمرد من فاسق يعلم أنه يعصي به مشكل.
والذي جزم به الزيلعي في الحظر والإباحة أنه لا يكره بيع جارية ممن يأتيها في دبرها أو بيع غلام من لوطي، وهو الموافق لما مر وعندي أن ما في الخانية محمول على كراهة التنزيه، وهو الذي تطمئن إليه النفوس إذ لا يشكل أنه وإن لم يكن معينا أنه متسبب في الإعانة ولم أر من تعرض لهذا اهـ وفي حاشية الشلبي على المحيط: اشترى المسلم الفاسق عبداً أمرد وكان ممن يعتاد إتيان الأمرد يجبر على بيعه (قوله: فليحفظ توفيقاً) بأن يحمل ما في الخانية من إثبات الكراهة على التنزيه، وما في الزيلعي وغيره من نفيها على التحريم، فلا مخالفة، وأقول: هذا التوفيق غير ظاهر؛ لأنه قدم أن الأمرد مما تقوم المعصية بعينه، وعلى مقتضى ما ذكره هنا يتعين أن تكون الكراهة فيه للتحريم، فلا يصح حمل كلام الزيلعي وغيره على التنزيه، وإنما مبنى كلام الزيلعي وغيره على أن الأمرد ليس مما تقوم المعصية بعينه كما يظهر من عبارته قريباً عند قوله وجاز إجارة بيت".
خلاصة الفتاویٰ (ج:۳ ؍ ۱۰۰ ):
"و بیع الغلام الأمرد ممن یعلم أنه ممن یعصی الله یکره، لأنه إعانة علی المعصیة.

"وضمن بکسر معزف … اٰلة اللهو کبرط ومزمار ودف، قیمته صالحًا لغیر اللهو … وصح بیعها …، وقالا: لایضمن ولا یصح بیعها، وعلیه الفتویٰ". (الدر المختار مع الشامي، کتاب الغصب / قبیل/مطلب: في ضمان الساعي ۹؍۳۰۷ زکریا، الفتاویٰ الهندیة، کتاب البیوع / الفصل الخامس في بیع المحرم الصید وفي بیع المحرمات ۳؍۱۱۶)
"ویجوز بیع البرط والطبل والمزمار … وأشباه ذٰلک في قول أبي حنیفة، وعندهما لا یجوز بیع هذه الأشیاء قبل الکسر". (الفتاویٰ الهندیة، کتاب البیوع / الفصل الخامس في بیع المحرم الصید وفي بیع المحرمات ۳؍۱۱۶)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں