ٹی وی کے بارے میں ایک تفصیلی فتوی کی ضرورت ہے، یعنی جائز وناجائز استعمال کے حوالے سے اس کا کیا حکم ہے؟ اور میراث کے مال میں شامل ہو نے کا کیا حکم ہوگا ؟
’’ٹی وی‘‘ معصیت کا آلہ اور کئی گناہوں کا مجموعہ ہے، اس لیے اسے دیکھنا ناجائز ہے، ٹی وی پر نظر آنے والی شکلیں تصویر ہیں، لہذا یہ تصویر سازی اور تصویر بینی کا ذریعہ ہے، ٹی وی دیکھنے والا موسیقی سننے سے محفوظ نہیں رہ سکتا، ٹی وی دیکھتے ہوئے لا محالہ غیر محرم پر نظر پڑ ہی جاتی ہے، ان تمام وجوہات کی بنا پر ٹی وی دیکھنا منع ہے۔
ٹی وی بذات خود میراث میں شامل نہیں ہوسکتا، اسے تمام ورثا کی اجازت سے ضائع کردیا جائے یا کسی کافر کو بیچ کر اس کی رقم میراث میں تقسیم کی جائے بشرطیکہ ٹی وی حلال آمدنی سے خریدا گیا ہو۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (6 / 391):
" (و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمراً)؛ لأن المعصية لاتقوم بعينه بل بعد تغيره، وقيل: يكره لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات: أن قوله: ممن أي من كافر، أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما زاد القهستاني معزياً للخانية أنه يكره بالاتفاق".
و في الرد:
"(أما بيعه من المسلم فيكره)؛ لأنه إعانة على المعصية، قهستاني عن الجواهر.
أقول: وهو خلاف إطلاق المتون وتعليل الشروح بما مر وقال ط: وفيه أنه لايظهر إلا على قول من قال: إن الكفار غير مخاطبين بفروع الشريعة، والأصح خطابهم، وعليه فيكون إعانة على المعصية، فلا فرق بين المسلم والكافر في بيع العصير منهما، فتدبر اهـ ولايرد هذا على الإطلاق والتعليل المار". فقط و اللہ اعلم
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:
ٹی وی ، موبائل اور لیپ ٹاپ کی خرید و فروخت کا حکم
فتوی نمبر : 144012200731
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن