بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹک ٹاک (Tik Tok ) اپلی کشن پر ویڈیو بنانا اور شئیر کرنا اور اس پر پیسہ کمانا


سوال

 کیا ٹک ٹوک ایپ پر میوزک کے ساتھ مزاحیہ اور ایکشن ویڈیوز بنا سکتے ہیں یا نہیں جب کہ میوزک ہم نہیں بجا رہے ہوتے ہم صرف میوزک کے ساتھ ہلتے جلتے ہیں یا پھر صرف منہ کا استعمال کرتے ہیں تو کیا اس صورت میں ویڈیوز بنانا جائز ہے یا نہیں؟ اور اس سے جو ہمیں ٹک ٹوک والوں کی طرف سے پیسے اور تحفے وغیرہ ملتے ہیں وہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

ٹک ٹاک (Tik Tok ) سے متعلق  جو معلومات دست یاب ہوئی ہیں، ان سے یہ معلوم ہوا ہے کہ  ٹک ٹاک (Tik Tok ) دورِ حاضر میں بڑھتا ہوا سوشل میڈیا کا ایک انتہائی خطرناک فتنہ ہے، اس ایپ کا شرعی نقطہ نظر سے استعمال قطعاً حرام اور ناجائز ہے، اس کے چند مفاسد درج ذیل ہیں:

1۔۔ اس میں جان دار کی تصویر سازی اور ویڈیو سازی  ہوتی ہے، جو شرعاً حرام ہے۔

2۔۔اس میں عورتیں انتہائی بے ہودہ ویڈیو بناکر پھیلاتی  ہیں۔

3۔۔ نامحرم کو دیکھنے کا گناہ۔

4۔۔ میوزک اور گانے کا عام استعمال ہے۔

5۔۔ مرد وزن  ناچ گانے پر مشتمل ویڈیو بناتے ہیں۔

6۔۔ فحاشی اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔

7۔۔ وقت کا ضیاع ہے، اور لہو لعب ہے۔

8۔۔ علماء اور مذہب کے مذاق اور استہزا  پر مشتمل ویڈیو اس میں موجود ہیں۔ بلکہ ہر چیز کا مذاق اور استہزا  کیا جاتا ہے۔

9۔۔ نوجوان بلکہ بوڑھے بھی پیسے کمانے کے چکر میں طرح طرح کی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جنہیں کوئی سلیم الطبع شخص گوارا  تک نہ کرے۔

یہ سب شرعاً ناجائز امور ہیں، لہذا کسی بھی مقصد کے لیے اس ایپلی کیشن کا استعمال جائز نہیں ہے، اور اس ایپ کے ذریعے پیسے کمانا بھی ناجائز اور حرام ہے۔

مسلمانوں کے اندر فحاشی ، عریانی، بد  تہذیبی پھیلانے، اور انہیں اپنے دین سے دوری کے لیے اغیار اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، مسلمانوں کو ان فتنوں کو سمجھنا چاہیے، اور اس ایپلی کیشن کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے، اس کی کسی بھی ویڈیو کو آگے شئیر کرنے سے مکمل اجتناب کرنا لازم ہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق مختلف ممالک میں دین دار طبقوں نے اس پر پابندی کا بھی مطالبہ کیا ہے، ان کا یہ مطالبہ بجا ہے، تمام مسلم ممالک  کے عوام کو اس کا مطالبہ کرنا چاہیے، اور اسلامی مملکت کے سربراہان کو اپنے نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر اس ایپلی کیشن پر پابندی لگانی چاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200518

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں