بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹوکن منی کی واپسی


سوال

میں نے ایک گھر خریدا تھا، ایک لاکھ روپے ٹوکن دے دیا تھا، باقی رقم 2مہینے میں دینی تھی، لیکن باقی رقم کا انتظام نہیں ہو سکا تھا،  30-35 دن ہوگئے تھے، میں نے سودا کینسل کردیا تھا، اب ٹوکن کی رقم واپس نہیں کر رہے وہ لوگ، اب اس صورت میں کیا کیا جائے؟

جواب

جب آپ نے وہ گھر خرید لیا تو صرف آپ کے کینسل کردینے سے وہ سودا کینسل نہیں ہوگا، بلکہ دوسری پارٹی کی رضا مندی شرط ہے، اگر وہ بھی راضی ہوں تو  ان پر لازم ہے کہ ٹوکن منی بھی واپس کریں، آج کل سودا کینسل ہونے کی صورت میں بیعانہ ضبط کرنے کا جو رواج ہے، شرعاً یہ جائز نہیں ہے۔ اور اگر وہ سودا کینسل کرنے پر راضی نہ ہوں تو آپ پر مکمل ادائیگی لازم ہوگی۔

’’ الفتاوی الهندیة ‘‘ : "البیع ینعقد بالإیجاب والقبول إذا کانا بلفظي الماضي مثل أن یقول أحدهما: بعت، والآخر: اشتریت؛ لأن البیع انشاء تصرف، والانشاء یعرف بالشرع، والموضوع للاخبار قد استعمل فیه، فینعقد به، ولاینعقد بلفظین أحدهما لفظ المستقبل ... وإذا حصل الإیجاب والقبول لزم البیع، ولا خیار لواحد منهما إلا من عیب أو عدم رؤیة".  (۳/۱۸ - ۲۰)

"الموسوعۃ الفقهیة": ’’ وخالف الإمام محمد، فلم یجز بیع العقار قبل قبضه، وهو قول أبي یوسف الأول، وقول الشافعي کما قدمنا، وذلک لإطلاق الحدیث وقیاسًا علی المنقول، وقیاسًا أیضاً علی الإجارة؛ فإنها في العقار لاتجوز قبل القبض، والجامع اشتمالهما علی ربح ما لم یضمن، فإن المقصود من البیع الربح، وربح ما لم یضمن منهي عنه شرعاً، والنهي یقتضي الفساد، فیکون البیع فاسدًا قبل القبض، لأنه لم یدخل في ضمانه، کما في الإجارة ‘‘. (۹/۱۲۵، ۱۲۶، العنایة شرح الهدایة بهامش فتح القدیر : ۶/۱۳۷، ط: دار احیاء التراث العربي بیروت)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200414

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں