بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹوٹے ہوئے برتن استعمال کرنا


سوال

کیا معمولی ٹوٹے ہوئے برتن استعمال کرنا صحیح ہے؟

جواب

ٹوٹے برتن استعمال کرنے کی چند صورتیں ہیں:

1۔ اگر برتن پیالہ یا گلاس ہے، اس کا کنارہ ٹوٹا ہوا ہے تو ٹوٹی جگہ سے منہ لگا کر استعمال کرنا منع ہے، نبی کریم ﷺ نے پیالہ کی ٹوٹی جگہ سے پانی پینے کو منع کیا ہے، نبی کریم ﷺ نے امت پر شفقت اور مہربانی فرماتے ہوئے یہ حکم دیا ہے، کیوں کہ اس جگہ سے منہ لگا کر استعمال کرنے سے ہونٹ زخمی ہوسکتے ہیں، پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس ٹوٹی جگہ پانی بہہ کر چہرے اور کپڑوں پر گرجائے، نیز ٹوٹی جگہ پر گندگی جمع ہوجاتی ہے اور مکمل صفائی حاصل کرنا ممکن نہیں رہتا، ان وجوہات کی بنا پر نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو ٹوٹے برتن سے منہ لگا کر پانی پینے سے منع کیا ہے۔
2۔ پیالہ یا گلاس کا جو حصہ ٹوٹا نہیں، اس جگہ سے اسے استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔

3۔ اگر برتن ایسا ہے جسے منہ لگائے بغیر استعمال کیا جاسکتا ہے  تو اس کے استعمال میں کراہت نہیں۔

4۔ اگر ٹوٹے ہوئے برتن کے علاوہ کوئی دوسرا برتن نہ ہو تو اسے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

5۔ اگر ٹوٹا ہوا برتن اصلاح و مرمت کے بعد قابل استعمال ہو تو اصلاح کے بعد استعمال کی گنجائش ہے۔

واضح رہے کہ حدیث شریف میں مذکور ممانعت کا مطلب ناجائز ہونا نہیں ہے، بلکہ ناپسندیدہ ہونا ہے، جس کی وجوہات بیان ہوچکی ہیں، لہٰذا اگر بوجہ مجبوری ٹوٹا ہوا برتن استعمال کیا جائے تو اس میں حرج نہیں ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (7 / 2753):

"(وعنه) : أي عن أبي سعيد -رضي الله تعالى عنه - (قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشرب من ثلمة القدح): بضم المثلثة وسكون اللام هي موضع الكسر منه. قال الخطابي: إنما نهى عن الشرب من ثلمة القدح؛ لأنها لاتتماسك عليها شفة الشارب، فإنه إذا شرب منها ينصب الماء ويسيل على وجهه وثوبه. زاد ابن الملك: أو لأن موضعها لايناله التنظيف التام عند غسل الإناء، (وأن ينفخ) : بصيغة المجهول أي وعن النفخ (في الشراب. رواه أبو داود). وكذا أحمد والحاكم". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201404

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں