بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیو گیم اور اسنوکر کی دکان کھولنا/ میموری کارڈ میں نعتیں، کارٹون وغیرہ ڈالنا


سوال

1-  میرے بھائی کی شاپ ہے وہ اس پر گیمز وغیر ہ رکھنا چاہتا ہے،  گیمز میں وہ سنوکر رکھنا چاہتا ہے، جس میں کسٹمر آپس میں کھیلیں  گئے۔اور ہر گیم  پر اس کو 20 یا 40 روپے  ملیں گے، اور  مجھے اس بارے میں  ساری معلومات نہیں  ہیں کہ اس میں کیا کیا کام ہوتا ہے؟  اس کے علاوہ  کمپیوٹر گیمز وغیر ہ وغیرہ۔ کیا  شریعت کی رو سے یہ جائز ہیں؟ اس کا پیسہ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟

2 - میموری کارڈ میں کارٹون اور نعت وغیرہ فل کر کے دینا جائز ہے یا نہیں؟

3 - اگر ساتھ  میں مزاحیہ فلمیں بھی فل کر کے دے دے تو گناہ تو نہیں ہوگا؟ پیسے حرام تو نہیں  ہوں گے؟

جواب

کسی بھی   کسی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کہ وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہوگا:

1۔۔   وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہومثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

اسنوکر گیمز میں عمومًا لوگ جوا کھیلتے ہیں، اگر جوا بھی نہ کھیلیں تو ٹیبل فیس ہارنے والی  ٹیم کے ذمے  ہوتی ہے، اور اس کا شمار بھی جوئے میں ہوتا ہے جو حرام ہے،  نیز ویڈیو گیم بھی جان دار کی تصاویر ،میوزک، گانے وغیرہ ہوتے ہیں، اور یہ سب چیزیں ناجائز ہیں، مزید یہ کہ ایسے مقامات عام طور پر کئی قسم اخلاقی خرابیوں مثلًا لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ وغیرہ کا مرکز ہوتے ہیں، نیز ایسے کھیلوں میں حصہ لینے والے عمومًا  نمازوں سے غفلت کا شکار ہوتےہیں، اس لیے اس طرح کا گیم زون کھولنا ان سب گناہ کے کام میں تعاون کا سبب ہوگا، اور گناہ پر تعاون کرنا شرعًا منع ہے، اس لیے اس کام سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

2۔ میموری کارڈ میں  آڈیو نعتیں، بیانات، یا غیر جان دار  کی تصاویر   پر مشتمل نعت، بیانات یا موسیقی پر مشتمل نعتیہ اشعار یا سوفٹ وئیر وغیرہ  ڈالنا اور اس پر اجرت لینا جائز ہے، لیکن گانے، میوزک، جان دار  کی تصاویر والے کارٹون ، نعتیں، فلمیں وغیرہ  ڈالنا جائز نہیں ہے  اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں