بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کے ذریعہ دوسرے شہر سے کپڑا منگواکر پھر نفع رکھ کر اسی وکیل پر بیچنے اور راستے کے نقصان کی ۷۵ فیصد ذمہ داری وکیل پر ڈالنے کا حکم


سوال

میں نے ایک دوست کے ساتھ کپڑ ے کا کاروبار شروع کیا ہے، میں نے دوست کو 2000000بیس لاکھ روپیہ دیا ہے ۔میرا دوست کراچی سے گوادر میں اپنی  دوکان کے لیے کپڑے لاتا ہے ، پھر تمام کپڑوں کو میرے پاس لاتا ہے۔  مجھے فی میٹر کپڑے پر 10 روپیہ نفع دیتا ہے ۔اگر کراچی سے لےکر گوادر تک کسی قسم کا نقصان پہنچا تو میں %25 نقصان کا ذمہ دار ہوں گا، یہ کاروبار جائز ہے؟

جواب

آپ کا سوال مکمل طور پر واضح نہیں ہے، اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے دوست کو پیسے  (مثلًا بیس  لاکھ)  دے کر کراچی سے کپڑا  خرید کر گوادر لانے کا کہتے ہیں اور وہ دوست کراچی سے کپڑا خرید کر گوادر لاکر وہ کپڑا آپ کے قبضہ میں دے دیتا ہے، پھر آپ کا قبضہ ہونے کے بعد دوبارہ آپ سے وہ کپڑا ادھار پر خرید لیتا ہےاور آپ کے لیے قیمت خرید کے حساب سے فی میٹر پر دس روپے نفع رکھتا ہے تو یہ صورت تو جائز ہے،البتہ یہ شرط لگانا کہ کپڑا کراچی سے گوادر پہنچنے تک اگر کسی قسم کا نقصان ہوا تو آپ صرف % 25 نقصان کے ذمے دار ہوں گے، یہ درست نہیں، کیوں کہ کراچی سے کپڑا لانے میں آپ کے دوست کی حیثیت آپ کے ’’وکیل بالشراء‘‘ (خریداری کے وکیل)  کی ہے، اور اس کپڑے کے اصل مالک آپ ہیں، لہٰذا کراچی سے گوادر آپ تک کپڑا پہنچنے کے دوران اگر کوئی بھی ایسا نقصان ہوا جس میں آپ کے دوست کا کوئی قصور نہ ہو  اور  نہ ہی اس کی طرف سے کسی قسم کی غفلت یا لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا ہو تو اس نقصان کی مکمل % 100 ذمے داری آپ پر عائد ہوگی، لہٰذا نقصان کی کچھ ذمے  داری اپنے اوپر اور کچھ دوست پر ڈالنا درست نہیں ہے، کیوں کہ وکیل بالشراء (خریداری کا وکیل) امین ہوتا ہے اور امین پر کسی قسم کے نقصان کی ذمہ داری ڈالنا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ اس کی طرف سے غفلت یا لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جائے۔

اسی طرح اگر آپ کا دوست کراچی سے کپڑا گوادر لانے کے بعد آپ کو باقاعدہ قبضہ دیے بغیر آپ سے وہ کپڑا خرید  لیتا ہے تو یہ صورت بھی شرعًا جائز نہیں ہوگی؛ کیوں کہ وکیل کا قبضہ امانت والا ہوتا ہے اور خریدارکا قبضہ ضمان والا ہوتا ہے، اور فقہی قاعدہ کی رو سے قبضہ امان، قبضہ ضمان کے قائم مقام نہیں ہوسکتا ہے، اس  لیے مذکورہ معاملے کے جائز اور درست ہونے کے  لیے یہ بات بھی شرط ہے کہ آپ کا دوست آپ کو قبضہ دے کر اپنا قبضہ امان ختم کرے اور پھر آپ سے وہ کپڑا خرید کر قبضہ ضمان حاصل کرے۔

اور اگر سوال کا کچھ اور مطلب ہے تو وضاحت کرکے سوال دوبارہ ارسال کردیجیے۔

تحفة الفقهاء(2/ 43):

"فأما إذا كان في يد المشتري فباعه المالك منه فنقول: إن كان في يده غصباً يصير قابضاً بنفس الشراء ولا يحتاج إلى تجديد القبض حتى لو هلك قبل أن يتمكن من قبضه حقيقة، فإنه يهلك على المشتري؛ لأن ضمان الغصب ضمان العين نظير ضمان البيع، فيكون من جنسه، فينوب قبض الغصب عن قبض البيع.

ولو باع الراهن المرهون من المرتهن وهو في حبسه لا يصير قابضاً بنفس الشراء ما لم يجدد القبض بأن يمكن من قبضه حقيقة بأن كان حاضراً في مجلس الشراء أو يذهب إلى بيته ويتمكن من قبضه؛ لأن قبض الرهن قبض أمانة، وإنما يسقط الدين بهلاكه لا بكونه مضموناً، ولكن بمعنى آخر عرف في موضعه، وقبض الأمانة لا ينوب عن قبض الشراء، وكذلك إذا كان في يده أمانة مثل الوديعة والعارية والإجارة ونحوها لم يدخل في ضمان المشتري إلا أن يتمكن من قبض جديد؛ لأن قبض الأمانة لا ينوب عن قبض الضمان".

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر(2/ 587):

"لاينوب قبض الرهن عن قبض الشراء؛ لأنه قبض أمانة فلاينوب عن قبض الضمان وإذا كان ملكه فمات كان عليه كفنه".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 694):

"(وملك) بالقبول (بلا قبض جديد لو الموهوب في يد الموهوب له) ولو بغصب أو أمانة؛ لأنه حينئذٍ عامل لنفسه، والأصل أن القبضين إذا تجانسا ناب أحدهما عن الآخر، وإذا تغايرا ناب الأعلى عن الأدنى لا عكسه.
(قوله: ولو بغصب) انظر الزيلعي (قوله: عن الآخر) كما إذا كان عنده وديعة فأعارها صاحبها له فإن كلاً منهما قبض أمانة، فناب أحدهما عن الآخر، (قوله: عن الأدنى) فناب قبض المغصوب والمبيع فاسداً عن قبض المبيع الصحيح، ولا ينوب قبض الأمانة عنه، منح (قوله: لا عكسه) فقبض الوديعة مع قبض الهبة يتجانسان؛ لأنهما قبض أمانة ومع قبض الشراء يتغايران؛ لأنه قبض ضمان، فلا ينوب الأول عنه، كما في المحيط، ومثله في شرح الطحاوي". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں