بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کا کسی چیز کو بیچ کر خود نفع کمانا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں:

موکل نے وکیل سے کہا: میرے لیے فلاں سے جانور خرید لو، وکیل نے وہ اپنے لیے خرید کر آگے بیچ دیا اور نفع کمایا، موکل کہتا ہے: میں نے آپ کو وکیل بنایا تھا؛ لہٰذا نفع میرا ہے،  وکیل کہتا ہے: میں نے اپنے لیے خریدا، کس کی بات مانی جائے گی اور نفع کس کا ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ کی چند صورتیں ہیں:

1: اگر موکل نے وکیل کو متعین شخص سے متعین جانور خریدنے کا وکیل بنایا تھا، پھر وکیل نے وہ جانور خرید لیا تو یہ خریداری موکل کی طرف سے شمار ہوگی، پھر اسی جانور کو جب وکیل نے آگے بیچ دیا تو یہ بیع موکل کی اجازت پر موقوف رہے گی؛ کیوں کہ وکیل امین ہوتا ہے، امانت میں اس قسم کا تصرف ناجائز ہے، اگر تصرف کرلیا ہے تو وہ ضامن ہوگا، امین نہیں رہا، موکل کے داموں سے جو چیز خریدی ہے اس کو کسی کے ہاتھ فروخت کرنا درست نہیں، اگر آگے چیز بیچ دی تو یہ فضولی کی بیع ہوگی، جو اصل مالک کی اجازت پر موقوف رہے گی، اگر وہ آگے بیع کو نافذ کردے تو بیع تام ہوجائے گی، ورنہ موقوف رہے گی، البتہ اگر واپسی ممکن نہ ہو تو فروخت سے حاصل شدہ رقم مع نفع وکیل موکل کو ادا کرے گا، اس صورتِ متعینہ میں اگر وکیل اپنے جانور خریدنے کا دعویٰ کرے تو وکیل کا دعویٰ معتبر نہیں ہوگا، اسی طرح اگر موکل نے وکیل کو جانور خریدنے کے لیے رقم ادا نہیں کی تھی تو موکل پر اس رقم کا ادا کرنا لازم ہے۔

2:  موکل نے اگر وکیل کو متعین جانور خریدنے کا نہیں کہا، بلکہ صرف آدمی کو متعین کیا اور وکیل نے جا کر اس بندے سے کوئی جانور اپنے لیے خرید لیا تو وہ جانور وکیل کا شمار ہوگا۔

3: وکیل نے اگر موکل کی بتائی ہوئی رقم سے مہنگا جانور خریدا ہو کہ اس جیسا جانور عام طور پر ایسی قیمت پر نہیں خریدا جاتا یا وکیل نے پیسوں کی مد میں کوئی اور چیز دے کر جانور خرید لیا تو ایسی صورت میں وہ جانور وکیل کا ہوگا اور آگے بیچنے کی وجہ سے جو نفع ہوگا، وہ بھی وکیل کا ہوگا۔

در مختار میں ہے:

"(ولو وكله بشراء شيء بعينه) ... (لايشتريه نفسه) ولا لموكل آخر بالأولى (عند غيبته حيث لم يكن مخالفًا دفعًا للغرر) فلو اشتراه بغير النقود (أو بخلاف ما سمي) المؤكل (له من الثمن وقع) الشراء (للوكيل) لمخالفته أمره وينعزل في ضمن المخالفة عيني (وإن) بشراء شيء (بغير عينه فالشراء للوكيل إلا إذا نواه للموكل) وقت الشراء (أو شراه بماله) أي بمال المؤكل، ولو تكاذبا في النية حكم بالنقد إجماعًا".  (كتاب الوكالة 5/517، ط: سعيد)

الجوہرۃ النیرۃ علیٰ مختصر القدوری میں ہے:

"(قوله: وإذا وكله بشراء شيء بعينه فليس له أن يشتريه لنفسه)؛ لأنه لما قبل الوكالة تعينت ففعل ما يتعين يقع لمستحقه سواء نوى عند العقد الشراء للموكل أو صرح به لنفسه بأن قال: اشتريت لنفسي فهو للموكل إذا إذا خالف في الثمن إلى شراء وإلى جنس آخر غير الذي سماه المؤكل ... أما إذا عينه فاشترى بأكثر مما سمي له لزم الوكيل؛ لأنه خالف إلى شراء. ... (أو يشتريه بمال الموكل) أراد به إضافة العقد إلى دراهم الموكل ولم يرد به النقد من ماله أي ليس المراد أن يشتريه بدراهم مطلقة ثم نقد المدفوعة إلى الوكيل فإن في هذه الصورة تفصيلاً وفيما إذا أضاف العقد إلى دراهم الموكل إجماع". (كتاب الوكالة 1/297 الناشر: المطبعة الخيرية)

بدائع الصنائعمیں ہے:

"الوكيل بالشراء أن له ولاية مطالبة المؤكل بالثمن بعد الشراء قبل أن يؤدي هو من مال نفسه لأن هناك الثمن يقابل المبيع، والملك في المبيع كما وقع وقع للمؤكل فكان الثمن عليه فكان له أن يطالبه به". (كتاب الكفالة، فصل في بيان حكم التوكيل 6/11، ط: سعيد)

"(وَأَمَّا) الْوَكِيلُ بِالشِّرَاءِ فَالتَّوْكِيلُ بِالشِّرَاءِ لَا يَخْلُو إمَّا أَنْ كَانَ مُطْلَقًا أَوْ كَانَ مُقَيَّدًا، فَإِنْ كَانَ مُقَيَّدًا يُرَاعَى فِيهِ الْقَيْدُ إجْمَاعًا لِمَا ذَكَرْنَا، سَوَاءٌ كَانَ الْقَيْدُ رَاجِعًا إلَى الْمُشْتَرَى أَوْ إلَى الثَّمَنِ، حَتَّى إنَّهُ إذَا خَالَفَ يَلْزَمُ الشِّرَاءَ إلَّا إذَا كَانَ خِلَافًا إلَى خَيْرٍ فَيَلْزَمُ الْمُوَكِّلَ، مِثَالُ الْأَوَّلِ: إذَا قَالَ: اشْتَرِ لِي جَارِيَةً؛ أَطَؤُهَا، أَوْ أَسْتَخْدِمُهَا أَوْ أَتَّخِذُهَا أُمَّ وَلَدٍ، فَاشْتَرَى جَارِيَةً مَجُوسِيَّةً أَوْ أُخْتَهُ مِنْ الرَّضَاعِ أَوْ مُرْتَدَّةً أَوْ ذَاتَ زَوْجٍ، لَا يَنْفُذُ عَلَى الْمُوَكِّلِ، وَيَنْفُذُ عَلَى الْوَكِيلِ.

وَكَذَلِكَ إذَا قَالَ: اشْتَرِ لِي جَارِيَةً تَخْدِمُنِي، فَاشْتَرَى جَارِيَةً مَقْطُوعَةَ الْيَدَيْنِ أَوْ الرِّجْلَيْنِ أَوْ عَمْيَاءَ؛ لِأَنَّ الْأَصْلَ فِي كُلِّ مُقَيَّدٍ اعْتِبَارُ الْقَيْدِ فِيهِ إلَّا قَيْدًا لَا يُفِيدُ اعْتِبَارُهُ، وَاعْتِبَارُ هَذَا النَّوْعِ مِنْ الْقَيْدِ مُفِيدٌ وَكَذَلِكَ إذَا قَالَ: اشْتَرِ لِي جَارِيَةً تُرْكِيَّةً، فَاشْتَرَى جَارِيَةً حَبَشِيَّةً، لَا يَلْزَمُ الْمُوَكِّلَ وَيَلْزَمُ الْوَكِيلَ لِمَا ذَكَرْنَا.

وَمِثَالُ الثَّانِي إذَا قَالَ: لَهُ اشْتَرِ لِي جَارِيَةً بِأَلْفِ دِرْهَمٍ، فَاشْتَرَى جَارِيَةً بِأَكْثَرَ مِنْ الْأَلْفِ، تَلْزَمُ الْوَكِيلَ دُونَ الْمُوَكِّلِ؛ لِأَنَّهُ خَالَفَ أَمْرَ الْمُوَكِّلِ، فَيَصِيرُ مُشْتَرِيًا لِنَفْسِهِ.

وَلَوْ قَالَ: اشْتَرِ لِي جَارِيَةً بِأَلْفِ دِرْهَمٍ، أَوْ بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَاشْتَرَى جَارِيَةً بِمَا سِوَى الدَّرَاهِمِ وَالدَّنَانِيرِ، لَا تَلْزَمُ الْمُوَكِّلَ إجْمَاعًا؛ لِأَنَّ الْجِنْسَ مُخْتَلِفٌ، فَيَكُونُ مُخَالِفًا وَلَوْ قَالَ: اشْتَرِ لِي هَذِهِ الْجَارِيَةَ بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَاشْتَرَاهَا بِأَلْفِ دِرْهَمٍ، قِيمَتُهَا مِائَةُ دِينَارٍ ذَكَرَ الْكَرْخِيُّ أَنَّ الْمَشْهُورَ مِنْ قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ أَنَّهُ لَا يَلْزَمُ الْمُوَكِّلَ؛ لِأَنَّ الدَّرَاهِمَ وَالدَّنَانِيرَ جِنْسَانِ مُخْتَلِفَانِ حَقِيقَةً، فَكَانَ التَّقْيِيدُ بِأَحَدِهِمَا مُفِيدًا.

وَرَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ يَلْزَمُ الْمُوَكِّلَ، كَأَنَّهُ اعْتَبَرَهُمَا جِنْسًا وَاحِدًا فِي الْوَكَالَةِ كَمَا اُعْتُبِرَا جِنْسًا وَاحِدًا فِي الشُّفْعَةِ، وَهُوَ أَنَّ الشَّفِيعَ إذَا أَخْبَرَ أَنَّ الدَّارَ بِيعَتْ بِدَنَانِيرَ فَسَلَّمَ الشُّفْعَةَ، ثُمَّ ظَهَرَ أَنَّهَا بِيعَتْ بِدَرَاهِمَ وَقِيمَتُهَا مِثْلُ الدَّنَانِيرِ، صَحَّ التَّسْلِيمُ.

كَذَا هَهُنَا فَإِنْ اشْتَرَى جَارِيَةً بِأَلْفِ دِرْهَمٍ، فَإِنْ كَانَ مِثْلُهَا يُشْتَرَى بِأَلْفٍ أَوْ بِأَكْثَرَ مِنْ أَلْفٍ أَوْ بِأَقَلَّ مِنْ أَلْفٍ مِقْدَارَ مَا يَتَغَابَنُ النَّاسُ فِيهِ فَيَلْزَمُ الْمُوَكِّلَ.

وَإِنْ كَانَ النُّقْصَانُ مِقْدَارَ مَا لَا يَتَغَابَنُ النَّاسُ فِيهِ لَزِمَ الْوَكِيلَ؛ لِأَنَّ شِرَاءَ الْوَكِيلِ مَعْرُوفٌ.

وَإِنْ اشْتَرَى جَارِيَةً بِثَمَانِمِائَةِ دِرْهَمٍ، وَمِثْلُهَا يُشْتَرَى بِأَلْفٍ، لَزِمَ الْمُوَكِّلَ؛ لِأَنَّ الْخِلَافَ إلَى خَيْرٍ لَا يَكُونُ خِلَافًا مَعْنًى". (بدائع الصنائع، كتاب الوكالة، فصل في بيان حكم التوكيل 6/29، دار الكتب العلمية) فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144104200375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں