بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کا خرید میں نفع لینا


سوال

اگر ایک دوکاندار (احمد) دوسرے دوکاندار (محمود)سے کہے کہ تم تیسرے دوکاندار خالد سے میرے لئے فلاں چیز ایک لاکھ روپے میں خریدلے وہی چیز محمود خالد سے نوے ہزار میں لےلے اور پھر یہی چیز احمد کو ایک لاکھ روپے میں دیدے,اور دس ہزار اپنے لیے کمائے ,کیا یہ جائز ہے ؟حالانکہ احمد کو یہ پتہ پہلے سے ہو کہ محمود اپنے طرف سے اپنا نفع ڈالے گا،یعنی بازار میں اسی قسم کاتعامل دوکانداروں کے درمیان جاری ہو،یہ بیع بالتعامل ہے ؟یا یہ وکالت کی قسموں میں سے ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جب کہاحمد‘محمودکوخریداری کے لیے اپناوکیل بناتاہے اورمحمودوہ چیزاپنے لیے نہیں بلکہ احمدکے لیے خریدتاہے تواس صورت میں محمود کے لیے اس چیز میں اپنے لیےنفع رکھناجائزنہیں ہے۔جائز تدبیر یہ ہوسکتی ہے کہ احمد اس سے کہے کہ تم فلاں چیز اپنے لیے خرید لو اور پھر مجھے فروخت کردو  اور محمود اپنا نفع رکھ کر احمد پر فروخت کردے مگر اس صورت میں احمد لینے کا اور محمود لازمی طور پر فروخت کرنے کا پابند نہ ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143609200003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں