بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکالت بالشراء میں وکیل کا کمیشن رکھنا جائز نہیں


سوال

اگر کوئی شخص (مثلاً عبد اللہ) مجھے پانچ درہم دے اور کہے کہ میرے لیے فلاں چیز خریدو،  اور میں اس چیز کو چار درہم میں خرید لوں  تو یہ جو ایک درہم میں نے اپنی مہارت سے اور ذاتی وقت لگا کر اور ذاتی اثر و رسوخ کا استعمال کر کے بچایا ہے، کیا عبداللہ کو بتائے بغیر اس کا رکھنا میرے لیے جائز ہے؟ اگر جواب نفی میں ہو تو مختلف ایجنٹس جیسے ٹریول ایجنٹ وغیرہ کے لیے  ٹکٹ یا کوئی اور چیز بیچ کر کسٹمر سے پیسے لینا جائز کیوں ہے؟ یعنی اس مسئلے میں اور اوپر پوچھے گئے مسئلے میں کیا فرق ہوگا؟ 

جواب

پہلی صورت میں آپ عبداللہ کے وکیل ہیں، وکالت اجرت کے ساتھ بھی ہوتی ہے اور بلااجرت تبرعاً بھی ہوتی ہے،  لہذا اگر وکالت کی اجرت طے ہو  (یعنی آپ نے بتایا ہو کہ میں اتنی اجرت لوں گا یا آپ کا پیشہ ہی یہ ہو اور بازار میں آپ اسی غرض سے آفس یا دکان کھول کر بیٹھے ہوں اور مارکیٹ والے جانتے ہوں کہ آپ اجرت پر ہی کام کرتے ہیں) تو  آپ اس کے مستحق ہوں گے، لیکن  اس کے علاوہ عبداللہ کے علم میں لائے بغیر کمیشن رکھنا جائز نہیں۔ جب کہ دوسری صورت میں ٹریول ایجنٹ  آپ کا وکیل نہیں، بلکہ اس کے ساتھ  ٹکٹ کی خریداری کا معاملہ ہوتا ہے، لہذا اس میں ایجنٹ کا اپنے لیے سروس چارجز رکھنا جائز ہے۔ 

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة: ۱۴۶۷ ، ج: ۳؍۵۷۳، ط:دارالجیل) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں