اگر رشتہ کرتے وقت یہ نیت نہ ہو کہ یہ وٹا سٹا کر رہے۔تو کیا یہ جائز ہے؟
اگر شادی اس شرط پر ہو کہ ہر ایک دوسرے کو اپنی زیرِ کفالت لڑکی کا نکاح دے گا، اور حق مہر بھی نہیں ہو گا، یعنی کہ ایک لڑکی کے بدلے میں دوسری لڑکی لی جائے ۔ تو یہ صورت ناجائز ہے جس کو "شغار" کہتے ہیں۔
البتہ اگر دو گھرانوں میں نکاح ہو اور ہر ایک کا مہر بھی مقرر ہو، البتہ ایک ہی موقع پر دو نکاح ہورہے ہوں تویہ صورت جائز ہے۔ عرف میں دونوں ہی کو وٹہ سٹہ کہا جاتا ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 105):
"وهو أن يشاغر الرجل: أي يزوجه حريمته على أن يزوجه الآخر حريمته ولا مهر إلا هذا، كذا في المغرب: أي على أن يكون بضع كل صداقًا عن الآخر، وهذا المقيد لا بد منه في مسمى الشغار، حتى لو لم يقل ذلك ولا معناه بل قال: زوجتك بنتي على أن تزوجني بنتك فقبل، أو على أن يكون بضع بنتي صداقًا لبنتك فلم يقبل الآخر بل زوجه بنته ولم يجعلها صداقًا لم يكن شغارًا بل نكاحًا صحيحًا اتفاقًا وإن وجب مهر المثل في الكل، لما أنه سمى ما لايصلح صداقًا". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144104200796
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن