بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ووٹ پر پیسے لینے اور دینے کا حکم


سوال

 الیکشن سے متعلق مسلہ اسکی چند صورتیں ہیں۔ ہرصورت کا حکم مطلوب ہے:

1: ایک تو یہ کہ کچھ لوگ اپنا کاروبار ترک کرکے الیکشن کے خاص ایام میں نیتاؤں  کے آگے پیچھے انکی جی حضوری میں انکے لئے ووٹ اکٹھا کرنے اور ان کا مجمع زیادہ دکھانے کی غرض سے انکے ساتھ انکے مجمع میں لگے رھتے ھیں اور جب نیتاؤں کی مجلس اپنے اختتام کو پہنچتی ھے تو نیتا لوگ ان لوگوں کو روپے دیتے ہیں ان روپیوں کا لینا اور مصرف دونوں کا حکم مطلوب ہے؟

2: دوسری صورت یہ ھے کہ نیتا کسی علاقہ کے مالدار یعنی ایسا شخص جسکی لوگ بات مانتےہوں اسکو ایک بڑی رقم دیتے ہیں اسکے عوض میں وہ اس پیسہ میں سے آدھا خود کے لے رکھ لیتے ہیں اور آدھے کو اپنی رعایا پر خرچ کر کے ان سے اپنی چنندہ پارٹی پر ووٹ ڈلواتے ہیں ایسی صورت میں نیتاؤں سے پیسہ لینا اور اس میں سے آدھا اپنے لئے خاص کر لینا اور آدھے سے ووٹ خریدنا کیسا ہے؟ درمیان میں پیسہ کھانے والوں کی تاویل اس طور پر ہے کہ انھوں نے ان نیتاؤں کی خدمت کی یا ان کے لئے کام کیا اسکے عوض میں ان سے کچھ پیسہ وصول کر لیا تو یہ انکی مزدوری ہو گی، اگر اسکو عالمی سطح پر دیکھا جائے کہ لوگوں کی فیلنگ کچھ اور ہے اور وہ پیسے لینے کے باعث انکی خواھشوں کے پابندھوکر مجبور کئے جاتے ہیں یا عوام چاھتی ھے کہ کہ ہم ایک انصاف پسند لیڈر کو چنیں لیکن کچھ غیر عادل اور نا اہل لوگ الیکشن میں کھڑے ھو کر اور لوگوں کو  پیسہ کھلا کر وہ حکومت کے عہدہ پر قائم  ہو جاتے ہیں اور مسلم عوام پر ظلم ڈھاتے اور فساد برپا کرتے ہیں تو اس ظلم و ستم اور فساد سبب وہ درمیان میں پیسہ کھانے والے بنے جنھوں نے معصوم عوام کو بہکا کر دھوکہ دے کر انہیں اونچے اونچے خواب دکھا کر ان سے زبر دستی انکے حق کو چھیناہے ووٹ ڈالنا ہر آدمی کا حق ہے، اسی حق کو غصب کیا ہے۔

3: اب شریعت /کتاب و سنت کی روشنی میں ظلم و ستم اور فسادات کا باعث کون ہونگے اور درمیان میں پیسہ کھانے والوں کا حکم کیا ھے؟

   ان تمام سوالوں کاجواب دیکر شکریہ کامستحق بنیں جلد جواب آجائےتو بہت بہتر رہیگا .


جواب

۱، ۲) ووٹ جمہوری نظام میں رائے شماری کے عمل کا نام ہے، جس کا  مقصد ملکی نظام اور عوامی نمائندگی کے لئے مناسب نمائندہ کا انتخاب کرنا ہے، اگر کوئی اس رائے کے آزادانہ استعمال کے بجائے کسی اور طریقہ یا جبر سے رائے تبدیل کرانے کی کوشش کرے یا کرانے کا حربہ استعمال کرے اور اس کے لئے روپیہ پیسہ دےتو یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے، لہذا   کسی بھی نام سے  کوئی روپیہ یا کوئی مال لے کر کسی کو ووٹ دینا یا دلوانا  یا کسی کے لئے راہ  ہموار کروانا ناجائز ہے  اور  یہ رقم لینا اور اس کی بنیاد پر ووٹ دینا دونوں حرام ہیں۔

۳)  اگر کوئی ووٹر اپنی دیانت کو سامنے رکھ کر کسی لیڈر کو ووٹ دیتا ہے اور اس نے اس لیڈر سے متعلق حتی الامکان پوری تحقیق بھی کی ہو اور اس سے متعلق مکمل اطمینان کے بعد ہی ووٹ دیا ہو، اب اگر وہ لیڈر نا اہل ثابت ہوتا ہے یا ظلم و ستم اور نا انصافیاں کرتا ہے تو اس کا گناہ ایسے ووٹر پر نہیں ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 362)

وفي المصباح الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد.

مجمع الضمانات(ص: 178)

إذا اجتمع المباشر والمسبب أضيف الحكم إلى المباشر

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143805200004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں