بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

(ومن کان فقیرًا فلياكل بالمعروف) میں اکل بالمعروف سے کیا مراد ہے؟


سوال

 آیت  {ومن کان فقیرًا فلياكل بالمعروف}  میں  ’’أكل بالمعروف‘‘  سے حق الخدمت  مرادہے یا قرض؟ مفتی بہ قول کیا ہے ؟

جواب

یتیم کا ولی اگر غریب اور محتاج ہو تو یتیم کی پرورش کے بدلہ یتیم کے مال میں سے حسبِ ضرورت بطورِ حقِ خدمت خود پر خرچ کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ نے اسے اس آیت میں دی ہے۔

’’تفسیر عثمانی‘‘ میں ہے:

’’یعنی یتیم کا مال ولی اپنے خرچ میں نہ لائے اور اگر یتیم کی پرورش کرنے والا محتاج ہو تو البتہ اپنی خدمت کرنے کے موافق یتیم کے مال میں سے تحقیق لے لیوے، مگر غنی کو کچھ لینا ہرگز جائز نہیں ‘‘۔

’’بیان القرآن‘‘ میں ہے :

’’چوں کہ یتامیٰ کے ولیوں کو ان کے مال میں ہر قسم کے تصرف سے روکا تھا؛ اس لیے اب یہ بھی بتانا ضروری تھا کہ بطورِ حق الخدمت کچھ لینا جائز ہے یا نہیں، سو حق الخدمت کو بھی اس حد تک محدود کردیا کہ جو شخص انتظام کرتا ہے وہ اپنا کوئی ذریعہ معاش نہیں رکھتا تو لے سکتا ہے، ورنہ نہیں‘‘۔

’’معارف القرآن‘‘ میں ہے:

’’آخر آیت میں اس کا ضابطہ ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی یتیم بچے کی تربیت اور اس کے مال کی حفاظت میں اپنا وقت اور محنت خرچ کرتا ہے، کیا اس کو یہ حق ہے کہ یتیم کے مال میں سے اپنا حق الخدمت کچھ لے لے؟ چنانچہ فرمایا : {ومن كان غنيًّا فليستعفف}  یعنی جو شخص حاجت مند نہ ہو ، اپنی ضرورت کا تکفل کسی دوسرے ذریعہ سے کرسکتا ہو ، اس کو  چاہیے کہ یتیم کے مال میں سے حق الخدمت نہ لیا کرے، کیوں کہ یہ خدمت اس کے ذمہ فرض ہے، اس کا معاوضہ لینا جائز نہیں، پھر فرمایا : {ومن كان فقيرًا فليأكل بالمعروف} یعنی جو ولی یتیم، فقیر محتاج ہو اور دوسرا کوئی ذریعہ معاش نہ رکھتا ہو وہ یتیم کے مال میں سے ایک مناسب مقدار کھا سکتا ہے جس سے حاجات ضروریہ پوری ہوجائیں‘‘۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200244

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں