بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وما نحن بمسبوقین کے بجائے وما نحن بمیتین پڑھنے کا حکم


سوال

سوال یہ ہے کہ آج بتاریخ۲۰جمادی الآخر ۱۴۴۵ مطابق ۳جنوری ۲۰۲۴بروز بدھ فجر کی نماز میں امام صاحب نے سورہ واقعہ کی تلاوت کی پہلی رکعت "نحن قدرنا بينكم الموت ومانحن بمسبوقين" تک تلاوت کی، لیکن "بمسبوقين"کی جگہ "بميتين"پڑھ لیے کیا نماز ہوجائے گی ؟

جواب

اگر قرآن کی تلاوت میں اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیرِ فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اوراس کے معنی میں ادنی مناسبت بھی نہ ہواور  غلط پڑھی گئی آیت یا جملے اور صحیح الفاظ کے درمیان وقفِ تام بھی نہ ہو (کہ مضمون کے انقطاع کی وجہ سے نماز کے فساد سے بچاجاسکے) اور نماز میں اس غلطی کی اصلاح بھی نہ کی جائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے اگر تغیر فاحش نہ ہو تو نماز فاسد نہیں ہوتی،اور صورتِ مسئولہ میں"وما نحن بمسبوقين"کے بجائے "وما نحن بميتين"پڑھنے کی وجہ سے نماز ہوگئی ہے؛ کیوں کہ معنی میں تغیر فاحش لازم نہیں آرہا ہے، لہذا نماز ادا ہوگئی ، اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔

امداد المفتیین میں ہے:

"قال في شرح المنیة الکبیر: "القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلك سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین".

(إمداد المفتین، ص ۳۰۳)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة".

(‌‌الفصل الخامس في زلة القارئ، ج: 1، ص: 80، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" أما إذا لم يقف ووصل - إن لم يغير المعنى - نحو أن يقرأ { إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات }فلهم جزاء الحسنى مكان قوله: { كانت لهم جنات الفردوس نزلا } لاتفسد. أما إذا غير المعنى بأن قرأ " إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم شر البرية إن الذين كفروا من أهل الكتاب " إلى قوله " خالدين فيها أولئك هم خير البرية " تفسد عند عامة علمائنا وهو الصحيح". هكذا في الخلاصة، (3/102):

"ذكر في الفوائد لو قرأ في الصلاة بخطأ فاحش، ثم رجع وقرأ صحيحاً، قال: عندي صلاته جائزة، وكذلك الإعراب، ولو قرأ النصب مكان الرفع، والرفع مكان النصب، أو الخفض مكان الرفع أو النصب لاتفسد صلاته". (ایضاً)

(کتاب الطلاق، ج نمبر ۱، ص نمبر ۸۰، رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں