بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ولیمہ اور رخصتی ایک دن ہوسکتی ہے؟


سوال

اگر نکاح پہلے سے ہو جائے تو  ولیمہ اور رخصتی ایک دن ہوسکتی ہے؟

جواب

ولیمہ کے مسنون وقت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں:

(1)عقد کے وقت ۔(2)نکاح کے بعد  رخصتی سے پہلے۔ (3) رخصتی کے بعد ، شبِ زفاف سے پہلے ۔(4)شبِ زفاف کے بعد ۔ (5)عقد سے دخول کے بعد تک ۔

ان میں سے راجح اور جمہور علماءِ کرام کا قول یہ ہے کہ  ولیمہ کا مسنون وقت میاں بیوی کے اکٹھا ہونے کے بعد یعنی   شبِ زفاف اور دخول کے بعد ہے،  علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  شبِ زفاف سے پہلے کے کھانے کو عربی میں ’’ولیمہ‘‘ نہیں کہتے، اسی طرح بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شبِ زفاف کے بعد ولیمہ کیا۔ اسی حدیث سے فقہاء ومحدثین اور شارحین نے استدلال کیا ہے کہ ولیمہ کا مسنون وقت  شبِ زفاف کے بعد ہے، اور عام طور پر شارحین نے دخول کی تصریح بھی ہے کہ شبِ زفاف میں دخول کے بعد ولیمہ کا مسنون وقت ہے۔

  البتہ علامہ عینی  رحمہ اللہ نے  بعض مالکیہ سے   نقل کیا ہے کہ’’ ولیمہ شبِ زفاف کے بعد اور دخول سے پہلے ہوجائے تو یہ بھی مستحب ہے، اور اسی پر آج کل لوگوں کا عمل ہے‘‘.  نیز خلوتِ صحیحہ بہت سے اَحکام میں چوں کہ دخول کے قائم مقام ہے، اس لیے اگر شبِ زفاف میں خلوتِ صحیحہ ہوجائے اور دخول نہ ہو تو بھی اس کے بعد ہونے والے ولیمہ کو  ’’ولیمہ مسنونہ‘‘  کہا جاسکتا ہے، البتہ افضل دخول کے بعد ہی ہے۔

خلاصہ یہ ہے ’’ولیمہ مسنونہ‘‘  کا اعلیٰ اور افضل درجہ یہ ہے کہ شبِ زفاف اور دخول کے بعد ہو۔ اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ  شبِ زفاف کے بعد اور دخول سے پہلے ہو۔  یہ دونوں مسنون ولیمہ شمار ہوں گے۔  اور اس کے علاوہ  عقد کے بعد، یا رخصتی کے بعد اور شبِ زفاف سے پہلے جو ولیمہ ہو وہ ’’ولیمہ مسنونہ‘‘  تو نہیں ہوگا، البتہ اس سے نفسِ ولیمہ کی سنت ادا ہوجائے گی، گو مسنون وقت کی سنت ادا نہیں ہوگی۔ اور جو دعوت/ ضیافت عقدِ نکاح سے ہی پہلے کی جائے وہ ولیمہ ہی نہیں ہوگا، بلکہ عام دعوت ہوگی۔

         حدیثِ مبارک میں ہے:

"وعن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً ولحماً. رواه البخاري". (مشکاۃ المصابیح، (2/278)، الفصل الاول، باب الولیمہ، ط: قدیمی)

         فیض الباری میں ہے:

"السنة في الولیمة أن تکون بعد  البناء، وطعام ماقبل البناء لایقال له: "ولیمة عربیة". (5/534، باب الولیمۃ حق، ط: دار الکتب العلمیہ، 4/300، ط: مکتبۃ الاسلامیہ، شارع کانسی ، کوئٹہ)

       اعلاء السنن میں ہے:

"والمنقول من فعل النبي صلی الله علیه وسلم أنها بعد الدخول، کأنه یشیر إلی قصة زینب  بنت جحش، وقد ترجم علیه البیهقي بعد الدخول، وحدیث أنس  في هذا الباب صریح في أنها  الولیمة بعد الدخول". (ج11/ص12،باب استحباب الولیمۃ، ط: ادارۃ القرآن) (بذل المجھود، (4/32) کتاب النکاح ، ط: مکتبہ قاسمیہ ملتان)

 عمدة القاري میں ہے:

"وقد اختلف السلف في وقتها: هل هو عند العقد أو عقيبة؟ أو عند الدخول أو عقيبه؟ أو موسع من ابتداء العقد إلى انتهاء الدخول؟ على أقوال. قال النووي: اختلفوا، فقال عياض: إن الأصح عند المالكية استحبابه بعد الدخول، وعن جماعة منهم: أنها عند العقد، وعند ابن حبيب: عند العقد وبعد الدخول، وقال في موضع آخر: يجوز قبل الدخول وبعده، وقال الماوردي: عند الدخول، وحديث أنس: فأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عروساً بزينب فدعي القوم، صريح أنها بعد الدخولوَاسْتحبَّ بعض الْمَالِكِيَّة أَن تكون عِنْد الْبناء وَيَقَع الدُّخُول عقيبها، وَعَلِيهِ عمل النَّاس".(14/112، باب الصفرۃ المتزوج، ط: امدادیہ ملتان) 

بذل المجہود میں ہے:

"یجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصة، أو بعد أن یبني بها، والثالث هو الأولی". (بذل المجهود، کتاب الأطعمة، باب في استحباب الولیمة للنکاح، مطبع سهارن پور قدیم ۴/ ۳۴۵، دارالبشائر الإسلامیة بیروت ۱۱/ ۴۷۱، تحت رقم الحدیث : ۳۷۴۳) 
فقہ السنۃ میں ہے:

"وقت الولیمة عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول، أو عقبه، وهذا أمر یتوسع فیه حسب العرف والعادة، وعند البخاري أنه صلی اﷲ علیه وسلم دعا القوم بعد الدخول بزینب". (فقه السنة، دارالکتاب العربي ۲/ ۲۱۰)

عمدۃ القاری میں ہے: 

"وفيه فوائد: ... الثالثة: اتخاذ الوليمة في العرس، قال ابن العربي: بعد الدخول، وقال البيهقي: كان دخوله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الوليمة". (20/ 151)

البناية شرح الهداية (12/ 84):
"(قال: ومن دعي إلى وليمة) ش: أي قال في " الجامع الصغير ": والوليمة طعام الزفاف م: (أو طعام) ش: هذا أمر في عطف العام على الخاص؛ لأن الطعام أعم من أن يكون وليمة أو غيرها. والوليمة خاص وهو طعام العرس كما ذكرنا".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 347):
"(قوله: دعي إلى وليمة) وهي طعام العرس، وقيل: "الوليمة" اسم لكل طعام.

الفتاوى الهندية (5/ 343):
"ووليمة العرس سنة، وفيها مثوبة عظيمة، وهي إذا بنى الرجل بامرأته ينبغي أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء، ويذبح لهم، ويصنع لهم طعامًا، وإذا اتخذ ينبغي لهم أن يجيبوا، فإن لم يفعلوا أثموا، قال عليه السلام: «من لم يجب الدعوة، فقد عصى الله ورسوله، فإن كان صائمًا أجاب ودعا، وإن لم يكن صائمًا أكل ودعا، وإن لم يأكل أثم وجفا»، كذا في خزانة المفتين".

البناية شرح الهداية (12/ 89):
"ولو بنى الرجل بامرأته ينبغي أن يولم، والوليمة حسنة، ويدعو الجيران والأصدقاء، ويصنع لهم طعامًا ويذبح لهم، ولا بأس أن يكون ليلة العرس دف يضرب به يشتهر ذلك ويعلن به النكاح، وينبغي للرجل أن يجيب، وإن لم يفعل فهو آثم، وإن كان صائمًا أجاب ودعا، وإن كان غير صائم أكل، ولا بأس يدعو يومئذ ومن الغد وبعد الغد ثم انقطع العرس".

امداد الاحکام میں ہے:

’’ ولیمہ مشہور قول میں تو اسی دعوت کا نام ہے جو شبِ زفاف ودخول کے بعد ہو. اور بعض اقوال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت سے دخول کے بعد تک جو بھی دعوت ہو ولیمہ ہی ہے، مگر راجح قول اوّل ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ سے  ولیمہ بعد الدخول ہی ثابت ہے‘‘۔(4/291) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں