بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان مسجد کے لیے وقف کی لیکن مسجد کو اس کی ضرورت نہیں


سوال

ایک شخص نے ایک مسجد کے نام ایک دکان وقف کردی ہے، مسجدکامتولی کہتاہے ہمیں دکان کی ضرورت نہیں ہے،  آپ کسی اورمسجد یامدرسے کو دے دیں تو  واقف وقف کردہ دکان کو  کسی اورمسجد یا مدرسہ کودےسکتاہے یا نہیں؟ یہ بات ملحوظ رہے کہ متولی مسجدکے سارے اخراجات خود کرتاہے، کسی سے چندہ وغیرہ بھی نہیں لیتاہے!

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ مسجد کے تمام اخراجات متولی اپنی ذاتی رقم سےا دا کررہا ہے جس کی وجہ سے مسجد کے لیے موقوفہ دکان لینے سے انکار کردیا ہے  تو اس صورت میں واقف کو چاہیے کہ یہ دکان کسی اور قریب ترین مسجد کے لیے وقف کردے، مسجد کے علاوہ کسی مدرسہ کے لیے وقف نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی اور مصرف میں کام میں لاسکتا ہے۔

رد المحتار میں ہے:

"(حشيش المسجد وحصره مع الاستغناء عنهما و) كذا (الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما فيصرف وقف المسجد والرباط والبئر) والحوض (إلى أقرب مسجد أو رباط أو بئر) أو حوض (إليه)". (4/349، فرع بناء بيتا للإمام فوق المسجد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"سئل شمس الأئمة الحلواني عن مسجد أو حوض خرب لايحتاج إليه لتفرق الناس هل للقاضي أن يصرف أوقافه إلى مسجد آخر أو حوض آخر؟ قال: نعم". (2/478، الباب الثالث، ط: بيروت)

رد المحتار میں ہے:

"ولا سيما في زماننا فإن المسجد أو غيره من رباط أو حوض إذا لم ينقل يأخذ أنقاضه اللصوص والمتغلبون كما هو مشاهد وكذلك أوقافه يأكلها النظار أو غيرهم، ويلزم من عدم النقل خراب المسجد الآخر المحتاج إلى النقل إليه". (4/360، ط: سعيد)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’مسجد کی فاضل کی رقم کا مصرف:

"ہر مسجد کی رقم اصالۃً اسی مسجد میں صرف کی جائے، اگر اس مسجد میں ضرورت نہ ہو، اور آئندہ بھی ضرورت متوقع نہ ہو یا رقم کی حفاظت دشوار ہو اور ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو پھر قریب کی مسجد میں اس کے بعد بعید کی مسجد میں حسبِ ضرورت اور مصالحِ مسجد کی تعمیر صرفہ پانی، روشنی، تنخواہ امام وموذن میں صرف کرنا درست ہے۔۔۔ الخ‘‘ (15/65 باب احکام المسجد)

کفایت المفتی میں ہے:

’’مسجد کی ضرورت سے زائد آمدنی کو دوسری مساجد پر خرچ کرنا:

"حنفیہ کا اصل مذہب تو یہی ہے کہ ایک وقف کا مال دوسرے میں خرچ کرنا جائز نہیں اور یہ حکم تمام متون وشروح وفتاویٰ میں موجود ہے، لیکن فقہاء کی بعض تصریحات اور فتاویٰ کی بعض جزئیات سے اتنی گنجائش تو نکلتی ہے کہ اگر کوئی وقف زمین یان مکان یا مسجد ویران ہوجائے اور اس کی حاجت بھی نہ رہے تو اس کے مال واسباب کو کسی دوسری مسجد میں نقل کیا جاسکتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگرچہ یہ صورت نہیں کہ مسجد موقفہ علیہ ویران ہوگئی اور اس کی حاجت نہ رہی، لیکن اس کا غنی ہونا اور جمع شدہ مال کی طرف محتاج ہونا اور جمع شدہ مال کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہونا، یہ سب امور ایسے ہیں کہ ان کی وجہ سے جواز نقل کا فتویٰ دیا جاسکتا ہے۔‘‘ ( کفایت المفتی 10/191، باب ما یتعلق بصرف مال المسجد فی غیرہ، ط: ادارۃ الفاروق کراچی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200511

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں