بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو کے واجبات


سوال

وضو کے  واجبات  کتنے  ہیں؟

جواب

واضح رہے كه  فقہاءِ کرام نے وضو کےاحکام میں واجب کی تفصیل  ذكر نہیں  کی  ہے، بلکہ ”واجبات“  کو ”فرض“  کےعنوان سےبیان کیا ہے اور یہ کہا کہ وضو  میں کوئی واجب ہی نہیں ہے؛اس کی خاص وجہ  یہ  ہے کہ وضو  میں ”واجب“  اور ” فرض“   دونوں  عمل میں برابر  ہیں،  جیسے  فرض چھوٹنے سے وضو نہیں ہوتا،  ویسے  واجب  چھوٹنے سے بھی وضو نہیں ہوتا۔

بعض فقہاءِ  کرام   نے  وضو کے  فرض اور واجب میں بھی فرق ذکر کیا ہے؛  اس کی وجہ یہ بیان کی  ہے کہ عمل کرنے میں اگرچہ فرض اور واجب دونوں برابر  ہیں، لیکن اعتقاد  کے اعتبار سے فرق ہے، فرض کا منکر کافر ہے اور واجب کا منکر کافر نہیں ہوتا،اس  لحاظ سے انہوں نےوضو کے چار واجبات بیان کيے ہيں:

1:بھنویں یا ڈاڑھی یا مونچھ اگر اس قدر گھنی ہوں کہ ان کے نیچے کی جلد چھپ جائے اور نظر نہ آئے تو ایسی صورت میں اس قدر بالوں کا دھونا واجب ہے ، جن سے جلد چھپی ہوئی ہے۔

2:کہنیوں کا دھونا واجب ہے۔

3: چوتھائی سرکا مسح کرنا۔

4: دونوں ٹخنوں کا دھونا واجب ہے۔

بہرحال جنہوں نےفرق کیا ہے، انہوں فرض اور واجب کو  الگ الگ بیان کیا ہے اور جنہوں نے فرق  نہیں کیا  انہوں  نے  دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت ،  دونوں پیروں کو ٹخنوں سمیت دھونا اور چوتھائی سر کے مسح کو فرض لکھا ہے اور یہ کہا کہ وضو میں کوئی واجب نہیں ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"فوجب غسله قبل نبات الشعر، فإذا نبت الشعر يسقط غسل ما تحته عند عامة العلماء كثيفًا كان الشعر أو خفيفًا؛ لأن ما تحته خرج أن يكون وجهًا؛ لأنه لايواجه إليه."

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:12، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و غسل اليدين) أسقط لفظ فرادى لعدم تقييد الفرض بالانفراد (و الرجلين) الباديتين السليمتين، فإن المجروحتين و المستورتين بالخف وظيفتهما المسح (مرةً) لما مر (مع المرفقين والكعبين) على المذهب و ما ذكروا من أن الثابت بعبارة النص غسل يد و رجل و الأخرى بدلالته."

(أركان الوضوء، ج:1، ص:98، ط:ایچ سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

" أفاد أنه لا واجب للوضوء و لا للغسل وإلا لقدمه.
(قوله: أفاد إلخ) حيث ذكر السنن عقب الأركان هنا وفي الغسل ولم يذكر لهما واجبا، ولو لم يكن كلامه مفيدا ذلك لقدم ذكر الواجب على السنن؛ لأنه أقوى، فمقتضى الصناعة تقديمه. وأراد بالواجب ما كان دون الفرض في العمل، وهو أضعف نوعي الواجب، لا ما يشمل النوع الآخر، وهو ما كان في قوة الفرض في العمل، لأن غسل المرفقين والكعبين ومسح ربع الرأس من هذا النوع الثاني، وكذا غسل الفم والأنف في الغسل؛ لأن ذلك ليس من الفرض القطعي الذي يكفر جاحده، تأمل. ثم رأيت التصريح بذلك في شرح الدرر للشيخ إسماعيل. واحترز بقوله للوضوء وللغسل عن نفس الوضوء والغسل، فإن الوضوء يكون فرضا وواجبا وسنة ونفلا كما قدمه الشارح، وكذا الغسل على ما يأتي في محله."

(سننه، ج:1، ص:103، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144110201377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں