بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو کی حالت میں پہنے ہوئے چمڑے کے موزے وضو ٹوٹنے سے پہلے اتار کر پہننے کا حکم


سوال

اگر کسی نے وضو کر کے موزے پہنے اور پہننے کےچند لمحے بعد اتار کر دوبارہ پہنے تو اس کا بھی وہی حکم ہو گاجو وضو ٹوٹنے کے بعد اتارنے کا ہے کہ پاؤں دھوئے؟  یا پہن کر اتارنے کا وضو کے ٹوٹنے نا ٹوٹنے سے کوئی تعلق نہیں؟

جواب

اگر کسی شخص نے وضو کر کے چمڑے کے موزے پہنے اور وضو ٹوٹنے سے پہلے موزے اتار دیے تو وضو ٹوٹنے سے پہلے پہلے وہ پاؤں دھوئے بغیر بھی  دوبارہ موزے پہن سکتا ہے، صرف موزے اتارنے سے پاؤں دھونا لازم نہیں ہوتا، بلکہ وضو کی حالت میں موزے پہننے کی صورت میں اگر وضو ٹوٹنے کے بعد موزے اتارے یا اتارنے کے بعد پہننے سے پہلے وضو ٹوٹ گیا تو پاؤں دھونا لازم ہوگا، کیوں کہ موزے حدث کو پاؤں تک پہنچنے سے روکتے ہیں، اور جب موزہ اتار دیا جائے  تو حدث پاؤں تک پہنچ جاتا ہے، اس  لیے پاؤں کا دھونا لازم ہوجاتا ہے، لیکن اگر وضو ٹوٹنے سے پہلے موزے اتارے جائیں تو  چوں کہ حدث موجود ہی نہیں ہے؛ اس  لیے وہ پاؤں تک پہنچا ہی نہیں،لہٰذا پاؤں کا دھونا بھی لازم نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 271):
"(عند الحدث) فلو تخفف المحدث، ثم خاض الماء فابتل قدماه ثم تمم وضوءه، ثم أحدث جاز أن يمسح (يوماً وليلةً لمقيم، وثلاثة أيام ولياليها لمسافر) وابتداء المدة (من وقت الحدث) فقد يمسح المقيم ستاً، وقد لايتمكن إلا من أربع كمن توضأ وتخفف قبل الفجر فلما طلع صلى فلما تشهد أحدث.

(قوله: عند الحدث) متعلق بقوله: تام؛ فيعتبر كون الطهر تاماً وقت نزول الحدث؛ لأن الخف يمنع سراية الحدث إلى القدم، فيعتبر تمام الطهر وقت المنع لا وقت اللبس، خلافاً للشافعي.

(قوله: جاز أن يمسح) لوجود الشروط هو كونهما ملبوسين على طهر تام وقت الحدث، ومثله ما لو غسل رجليه، ثم تخفف، ثم تمم الوضوء أو غسل رجلاً فخففها، ثم الأخرى كذلك، كما في البحر، بخلاف ما لو توضأ ثم أحدث قبل وصول الرجل إلى قدم الخف، فإنه لايمسح كما ذكره الشافعية، وهو ظاهر (قوله: يوماً وليلةً) العامل فيهما الضمير في قوله: وهو جائز، لعوده على المسح أو المسح في قوله: شرط مسحه، أفاده ط.
(قوله: وابتداء المدة) قدره ليفيد أن من في كلام المصنف ابتدائية، وأن الجار والمجرور خبر لمبتدإ محذوف، وهو ذلك المقدر ط (قوله: من وقت الحدث) أي لا من وقت المسح الأول، كما هو رواية عن أحمد، ولا من وقت اللبس، كما حكي عن الحسن البصري؛ وتمامه في البحر.
وذكر الرملي أن صريح كلام البحر أن المدة تعتبر من أول وقت الحدث لا من آخره، كما هو عند الشافعية. وما قلناه أولى؛ لأنه وقت عمل الخف، ولم أر من ذكر فيه خلافاً عندنا. اهـ.
وعليه فلو كان حدثه بالنوم فابتداء المدة من أول ما نام لا من حين الاستيقاظ، حتى لو نام أو جن أو أغمي عليه مدته بطل مسحه".
 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 275)
"(ونزع خف) ولو واحداً (ومضي) المدة وإن لم يمسح (إن لم يخش) بغلبة الظن.

 (قوله: ونزع خف) أراد به ما يشمل الانتزاع، وإنما نقض؛ لسراية الحدث إلى القدم عند زوال المانع، (قوله: ولو واحداً)؛ لأن الانتفاض لايتجزأ، وإلا لزم الجمع بين الغسل والمسح، وأشار إلى المراد بالخف الجنس الصادق بالواحد والاثنين (قوله: ومضي المدة)؛ للأحاديث الدالة على التوقيت. ثم إن الناقض في هذا والذي قبله حقيقة هو الحدث السابق، لكن لظهوره عندهما أضيف النقض إليهما مجازاً، بحر (قوله: وإن لم يمسح) أي إذا لبس الخف ثم أحدث بعده، ثم مضت المدة بعد الحدث ولم يمسح فيها ليس له المسح". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200280

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں