بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو میں داڑھی دھونے کا حکم


سوال

میں نے ’’السقایہ شرح وقایہ، باب الوضو ‘‘ میں پڑھا کہ ڈاڑھی اگر گھنی ہو تو جو ڈاڑھی چہرہ کی حد میں ہے اس کے  چوتھائی حصے  کا مسح کرنا فرض ہے۔  اور میں نے ’’بہشتی زیور‘‘  میں باب الوضو میں پڑھا کہ ڈاڑھی اگر گھنی ہو تو جو ڈاڑھی چہرہ کے حد میں ہو اس کا مکمل دھونا فرض ہے۔  اور میں نے اپنے ایک استاذ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اگر ڈاڑھی گھنی ہے تو وہ چہرہ دھونے کے ضمن میں دھل جاتی ہے۔  تو کون سا قول مفتی بہ ہے؟

جواب

داڑھی کے وہ بال جو چہرے کی حدود سے باہر (تھوڑی کے نیچے) لٹک رہے ہوں انہیں وضو میں دھونا فرض نہیں ہے۔ جو بال چہرے کی حدود میں ہوں ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی داڑھی یا مونچھ اس قدر گھنی ہو کہ اس کے نیچے کی کھال نظر نہ آئے، تو وضو میں اس پوشیدہ وچھپی کھال کا دھونا فرض نہیں ہے، لیکن چہرے کی حدود میں جو بال ہوں (یعنی تھوڑی کے نیچے تک) انہیں دھونا ضروری ہے، صرف چوتھائی حصے کا مسح کرنا کافی نہیں ہوگا۔ اور اگر داڑھی یا مونچھ اس قدر گھنی نہیں ہے یعنی اس کے نیچے کی کھال نظر آتی ہے، تو اس کھال تک پانی پہنچانا فرض ہے۔ باقی  چہرے کی حدود میں داڑھی کے دھونے کے ساتھ ساتھ داڑھی کا خلال سنت ہے۔ 

واضح رہے کہ ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا جائز نہیں ہے، اس لیے کم از کم ایک مشت داڑھی رکھنے کا اہتمام بہرحال ضروری ہے۔

الدر المختار مع الشامیة:

"لا غسل باطن العینین والأنف والفم وأصول شعر الحاجبین واللحیة والشارب". (الدر المختار)

وفي الشامیة:

"(قوله: وأصول شعر الحاجبین) یحمل هذا علی ما إذا کانا کثیفین، أما إذا بدت البشرة فیجب، کما یأتي له قریباً عن البرهان، وکذا یقال في اللحیة والشارب". (۱/۲۱۱، أرکان الوضوء )

فتح القدیر:

"وسنن الطهارة ...تخلیل اللحیة ..." الخ (فتح ص ۱۶، ۳۱، ج۱)

وقال في حاشیة الطحطاوي:

"والتخلیل تفریق الشعر من جهة الأسفل إلی فوق ویکون الکف إلی عنقه ... أي حال وضع الماء ویجعل ظهر کفه إلی عنقه حال التخلیل". (حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح: ص ۷۰)

"السقاية على شرح الوقاية" کی عبارت درج ذیل ہے:

"قوله: واللحیة:امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ربعِ لحیہ کا مسح کرنا فرض ہے، ڈاڑھی اگر زیادہ گھنی نہیں ہے تو تھوڑی کے نیچے تک پانی پہنچانا ضروری ہے، زیادہ گھنی ہونے کی صورت میں جب کہ تھوڑی کے نیچے تک پانی پہنچانا دشوار ہو تو اس وقت چوتھائی لحیہ کا مسح کرنا فرض ہے، نہ کہ پورے لحیہ کا‘‘۔ ( السقایہ علی شرح الوقایہ، حاشیہ نمبر 4، کتاب الطہارہ، 1 / 36، ط: میر محمد کتب خانہ)

تمام عبارات کو جمع کرنے سے وہی مفہوم نکلتا ہےجو اوپر نقل کیا گیا ہے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں