غسل کی سنتیں کہیں 6 لکھی ہیں کہیں 5۔ اور وضو کی سنتیں کہیں 14 لکھی ہیں اور کہیں 13۔ حقیقت میں کتنی ہیں؟
(۱) تین مرتبہ دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا (۲) استنجا کرنا اور جس جگہ بدن پر نجاست لگی ہو اسے دھونا (۳) ناپاکی دور کرنے کی نیت کرنا (۴) پہلے سنت کے مطابق وضو کرلینا (۵) تمام بدن پر تین بار پانی بہانا۔
چوں کہ غسل سے پہلے سنت کے مطابق وضو کرنا بھی سنت ہے، اس لیے وضو کی جتنی سنتیں ہیں ان کی رعایت کرنا بھی غسل کی سنتوں میں شمار کیا گیا ہے، البتہ غسل میں اعضاء دھونے کی ترتیب وضو سے مختلف ہے، یعنی اگر ایسی جگہ غسل کر رہے ہوں جہاں پانی جمع ہوتاہے تو غسل سے پہلے کیے جانے والے وضو میں پاؤں نہ دھوئے جائیں، جب غسل مکمل ہوجائے تو اس جگہ سے ایک طرف ہوکر پاؤں دھوئے جائیں۔ اسی طرح وضو کے بعد غسل کے دوران اعضاء پر پانی بہانے میں مختلف اقوال ہیں، راجح یہ ہے کہ وضو کے بعد پہلے سر پر، پھر دائیں کاندھے پر، پھر بائیں کاندھے پر پانی ڈالے۔ نیز غسل میں استقبالِ قبلہ منع ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار)
بعض باتوں میں فقہاء کی رائے مختلف ہے کہ یہ سنت ہیں یا مستحب، مثلاً: نیت کرنا، مسواک کرنا، ترتیب سے وضو کرنا، ان امور کو بعض نے مستحب قرار دیا ہے، اور بعض نےسنت، راجح یہ ہے کہ یہ سنت ہیں۔ اسی وجہ سے تعداد میں فرق آجاتا ہے۔اس میں کوئی اختلاف کی بات نہیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 106):
"نية عبادة لاتصح إلا بالطهارة كوضوء أو رفع حدث أو امتثال أمر".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 110):
"(و) البداءة (بغسل اليدين) الطاهرتين ثلاثًا قبل الاستنجاء وبعده، وقيد الاستيقاظ اتفاقي؛ ولذا لم يقل قبل إدخالهما الإناء لئلايتوهّم اختصاص السنّة بوقت الحاجة؛ لأنّ مفاهيم الكتب حجة".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 156):
"(وسننه) كسنن الوضوء سوى الترتيب. وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة؛ لأنّه يكون غالبًا مع كشف عورة، وقالوا: لو مكث في ماء جار أو حوض كبير أو مطر قدر الوضوء والغسل". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200819
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن