بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کل مال میں وصیت کے نفاذ کا حکم / بیوہ، بھائی اور بہن میں ترکہ کی تقسیم


سوال

میرے ایک کزن فوت ہوگئےہیں، ان کی کوئی اولاد نہیں ہے، ترکہ میں ایک مکان اور کچھ بینک بیلنس چھوڑاہے۔ اپنی زندگی میں کہا کرتے تھے کہ اپنے بعد اپنی جائیداد مدرسہ میں دینا چاہتا ہوں، لیکن زندگی نے وفا نہ کی، اچانک ہارٹ اٹیک سے وفات پاگئے۔ورثا میں بیوہ، ایک بھائی   اور ایک بہن چھوڑ گئے ہیں۔  اب ان کے  ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ جس  سے ان کو زیادہ سے زیادہ ثواب ملے۔

جواب

واضح رہے کہ  اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں  کسی کارِ خیر میں خرچ کرنے کے لیے وصیت کی ہو تو  اس میت کے ترکہ میں سے تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض ہونے کی صورت میں قرض کی ادائیگی کے بعد، بقیہ ترکے کے ایک تہائی (ثلث) حصے میں اس وصیت کو نافذ کیا جائے گا اور اگر کسی شخص نے ایک تہائی ترکہ سے زیادہ کی  وصیت  کی ہو تو اس صورت میں اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور سب اپنی مرضی وخوشی سے اس وصیت کو نافذ کرنا چاہیں تو نافذ کرسکتے ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کے کزن نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد مدرسہ میں دینے کی صرف خواہش کا اظہار کیا تھا، وصیت نہیں کی تھی، یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوگیا، اس لیے شرعاً اس وصیت کا نافذ کرنا ورثاء پر لازم نہیں ہے، بلکہ ترکہ ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا، البتہ اگر تمام ورثاء عاقل  اور بالغ ہوں اور وہ اپنی مرضی سے تقسیم سے قبل مرحوم کے مال میں سے کچھ رقم ان کے ایصالِ ثواب کے لیے کسی کارِخیر میں خرچ کرنا چاہیں تو اس کی انہیں اجازت ہے۔ترکہ کی تقسیم کا طریقہ مندرجہ ذیل ہے:
مرحوم کے کل مال کو  4حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے ایک حصہ (25.00٪)  مرحوم کی بیوہ کو، ایک حصہ (25.00٪)  مرحوم کی بہن کو اور دو حصے  (50.00٪) مرحوم کے بھائی کو ملیں گے۔

’’(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته)‘‘

(الدر المختار و حاشية ابن عابدين 6 / 650 ط: سعيد)

’’(إلا بإجازة ورثته)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة»‘‘

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين 6 / 656 ط: سعيد) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں