وصیت کا طریقہ کیاہے؟ اورکب کرنی چاہیے؟
ہر انسان کا دنیا میں رہتے ہوئے مختلف لوگوں سے واسطہ رہتاہے،کسی سے کچھ لینایا کسی کو کچھ دیناحقوقِ واجبہ ہوتے ہیں،بسااوقات قرض لیے جاتے ہیں ،لوگوں کی امانتیں کسی کے پاس رکھی ہوتی ہیں،اور انسان کو اپنی موت کا کچھ علم نہیں کہ کس وقت آجائے۔اس لیے افضل یہ ہے کہ وصیت لکھی ہوئی ہر وقت تیار رہے،اور آدمی پر جس جس کا جو حق ،یاقرضہ یاامانتیں ہیں یادینی فرائض اور واجبات میں سے ادائیگی باقی ہے ان تمام کو کسی کاغذ پر لکھ کر وصیت تیار رکھے، تاکہ اگر اچانک موت آجائے تووارثین ان تمام چیزوں کو اداکرسکیں اور درست انتظامات کرسکیں۔بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
''کسی مسلمان کے پاس کوئی بھی چیز ہو جس کی وصیت کرناہوتواس کے لیے یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ دوراتیں گزرجائیں اور اس کی وصیت ا س کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو''۔(1/382)
نیز سنن ابن ماجہ کی حدیث میں رسول اللہ ﷺسے منقول ہے کہ :
''جس شخص کو وصیت پر موت آئی (یعنی وصیت کرکے دنیاسے گیا)وہ صحیح راستے پر اور سنت پر مرا۔''(ص:194)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201776
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن