بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وصیت شدہ جگہ کے علاوہ دوسری جگہ مسجد بنانا


سوال

میرے والد صاحب نے  مسجد بنانے کی وصیت کی، جس جگہ کا بتایا اس کا راستہ نہیں ہے، کیا ہم کسی اور جگہ یہ تعمیر کر سکتے  ہیں؟

جواب

فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زمین سے متعلق وصیت کرتا ہے کہ اس کو مسجد بنا دیا جائے تو اس کی یہ وصیت نافذ العمل ہو گی، اور اس نے جس جگہ کے متعلق وصیت کی ہو اسی زمین کو مسجد بنایا جائے گا، اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ کو مسجد بنانا درست نہ ہو گا، لیکن اگر وہ جگہ ایسی ہو جہاں مسجد بنانا بالکل نا ممکن ہو اور آنے جانے کا بالکل کوئی راستہ نہ ہو  تو ایسی صورتِ حال میں اجازت ہو گی کہ مسجد کسی دوسری جگہ بنا دی جائے۔

واضح رہے کہ وصیت کے  قابلِ عمل ہونے کے  لیے ایک شرط یہ ہے کہ وصیت ایک تہائی ترکہ میں کی گئی ہو ، لہذا مذکورہ وصیت  اگر ایک تہائی ترکہ میں  سے نافذ ہوتی ہو تو اس کو نافذ کیا جائے گا،  ورنہ   یہ  وصیت ایک تہائی ترکہ تک محدود رہے گی، ایک تہائی سے زیادہ تمام عاقل بالغ ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی۔

الفتاوى الهندية (6/ 97):

"ولو أوصى أن يجعل أرضه مسجدًا يجوز بلا خلاف."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 433):

"قولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 433):

"(قوله: أي في المفهوم و الدلالة إلخ) كذا عبر في الأشباه والذي في البحر عن العلامة قاسم في الفهم و الدلالة و هو المناسب لأن المفهوم عندنا غير معتبر في النصوص و المراد به مفهوم المخالفة المسمى دليل الخطاب، وهو أقسام مفهوم الصفة، والشرط والغاية والعدد واللقب أي الاسم الجامد كثوب مثلًا، و المراد بعدم اعتباره في النصوص أن مثل قولك: أعط الرجل العالم أو أعط زيدًا إن سألك أو أعطه إلى أن يرضى أو أعطه عشرةً أو أعطه ثوبًا لايدل على نفي الحكم عن المخالف للمنطوق بمعنى أنه لايكون منهيًّا عن إعطاء الرجل الجاهل، بل هو مسكوت عنه وباق على العدم الأصلي، حتى يأتي دليل يدل على الأمر بإعطائه أو النهي عنه و كذا في البواقي، و تمام الكلام على ذلك في كتب الأصول."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 384):

"مطلب في استبدال الوقف و شروطه

(قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح و قيل: اتفاقًا. و الثاني: أن لايشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لاينتفع به بالكلية بأن لايحصل منه شيء أصلًا، أو لايفي بمؤنته فهو أيضًا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي و رأيه المصلحة فيه. و الثالث: أن لايشرطه أيضًا و لكن فيه نفع في الجملة و بدله خير منه ريعًا و نفعًا، و هذا لايجوز استبداله على الأصح المختار، كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105201053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں