بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وسوسہ سے طلاق کا حکم ، کلما کی طلاق کا معنی


سوال

بندہ کو کلما طلاق کے بارے میں وسوسہ ہے۔ایک بندے نے میرے سامنے ایک چوری کے واقعے کے بارے میں بات کی کہ مجھ سے چوری ہونے کے بعد میں نے وہ تمام بندے جو میرے مدرسے میں آتے تھے ان سب سے پوچھا، لیکن کسی نے تسلیم نہ کیا کہ چوری اس نے کی ہے۔وہ بندہ کہہ رہاتھا کہ میں نے سب سے کہا کہ میں آپ لوگوں سے کلما طلاق کا قسم اٹھاؤں گا اور اس کے لیے وقت مقرر کیا۔وقت سے پہلے ایک بندے نے فون پر بتایا کہ جناب آپ قسم وغیرہ کو چھوڑ دیں آپ کا چور مل گیا ہے اور آپ کی امانت میرے حوالے کر دی ہے۔یہ واقعہ میں نے ایک دو دن کے بعد اپنے ایک دوست سے بیان کیا اور یہ بیان کرنے کے ساتھ میری بیوی کی تصویر میرے ذہن میں آگئی اور سارا دن اس کے بارے میں سوچتا کہ ایسا نہ ہو کہ اس سے میرے نکاح پر کچھ اثر پڑگیا ہو ۔کبھی دل میں سوچتا کہ اگر میں اس طرح کہوں  تو پھر واقع ہوگا۔اس طرح واقع ہوگاسارا سارا دن اسی بات پر سوچتا تھا۔پھر ایک دن صبح اٹھنے کے بات ذہن میں ایک بات آگئی  ایسا نہ ہو کہ اس بات کے بارے میں سوچتے ہوئےزبان سے کلما کے الفاظ نہ نکلے ہوں۔  اور تقریباََ تین ماہ سے یہی بات ذہن کو خراب صورت حال کی طرف لے کر گئی ہے۔مہربانی کر کے کلما کے بارے میں تفصیل بتا دیں۔ نیز یہ بھی بتا دے کہ اگر کوئی اس طرح کہے کہ میں بیوی کوکلما طلاق دیتا ہوں تو اس کے بارے میں کیا شرعی حکم ہوگا؟

جواب

محض وسوسہ یاسوچ یاخیالات آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ،جب تک کہ آدمی  زبانی یا تحریری طورپر اپنی بیوی کو طلاق نہ دے دے۔لہذا آپ وسوسہ کی طرف دھیان نہ دیں۔ نیز "کلما کی طلاق"  کوئی طلاق نہیں ہوتی، مثلاً: کوئی یوں کہہ دے کہ "مجھ پر کلما کی طلاق ہے"  تو اس سے کوئی طلاق نہیں ہوگی۔البتہ اگر کوئی "کلما" کے الفاظ اپنی  جانب سے یوں ادا کرے "کلما تزوجت فهي طالق"، یعنی یہ  کہے کہ "جب جب میں شادی کروں تو میری بیوی کو طلاق "، تو ہر بارجس سے بھی نکاح کرے گا طلاق واقع ہوجائے گی ۔ 

یہ بھی واضح رہے کہ طلاق  کے الفاظ کا حکایۃً (یعنی دوسرے کے الفاظ نقل کرتے ہوئے) تکلم کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، جیسا کہ کوئی  طلاق کے مسائل پڑھاتے ہوئے  ان الفاظ کا تکلم کرے تو طلا ق نہیں ہوتی۔ لہٰذا سائل نے بھی مذکورہ واقعہ کی بنا پر اگر اپنے دوست کے سامنے   کلما کے ساتھ طلاق کے الفاظ حکایۃً نقل کیے ہوں تو ان سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

'' إذا قال: کل امرأة أتزوجها طالق، والحیلة فیه ما في البحر: أنه یزوجه فضولي و یجیز بالفعل، کسوق الواجب إلیها أو یتزوجها بعد ما وقع الطلاق علیها؛ لأن کلمة کل لا تقتضي التکرار''. (ردالمحتار على الدرالمختار، کتاب الطلاق، باب التعلیق،، کراچی ۳/۳۴۵)

''قال لامرأته: کلما دخلت هذه الدار فأنت طالق، و في کلمة "کلما" تطلق في کل مرة تدخل، و إن کان المحل متحداً فصار الطلاق متعلقاً بکل دخول وقد وجد الدخول في المرة الثانیة والثالثة فطلقت، فلو أنها تزوجت بزوج آخربعد ذلک، ثم تزوجها الأول فدخلت الدار لا یقع الطلاق عند أصحابنا الثلاثة، ولو عقد الیمین علی التزوج بکلمة "کلما"، فطلقت ثلاثاً بکل تزوج، ثم تزوجها بعد زوج آخر طلقت؛ لأنه أضاف الطلاق إلی الملک، والطلاق المضاف إلی الملک یتعلق بوجود الملک بخلاف الدخول''. (بدائع الصنائع، کراچی ۳/۲۳) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200319

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں