بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ورثاء کے لیے وصیت


سوال

میرے والد کا انتقال 28 نومبر 2019 کو ہوا ہے، ہم 2 بھائی اور 6 بہنیں ہیں، والدہ حیات ہیں۔ میرے والد نے وصیت لکھ کر چھوڑی ہے کہ "میں دونوں لڑکوں (بیٹوں) کو وصیت کرتا ہوں کہ وراثت میں سے کم ازکم 5 لاکھ روپے ہر لڑکی  (بیٹی) کو ادا کریں گے، ان لڑکیوں کے بچوں کی شادی کے موقع پر اشیاء کی صورت میں مثلاً  جہیز، فرنیچر،زیور، کھانا وغیرہ یا نقد رقم بھی دے سکتے ہیں،   پچھلا  کچھ لیا دیا معاف ہے، دونوں بھائی جائے داد اپنے نام کرواسکتے ہیں،  تاحیات والدہ لڑکوں کے پاس رہیں گی، خرچہ دونوں بیٹے برداشت کریں گے۔

جواب

واضح رہے کہ ورثاء کے حق میں کی جانے والی وصیت ورثاء کی رضامندی اور اجازت کے بغیر نافذ  نہیں ہوتی، لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں آپ کے والد مرحوم کی وصیت کی حیثیت صرف ایک تجویز اور مشورہ کی ہے اور شرعی طور پر ان کے چھوڑے ہوئے ترکہ کی تمام چیزوں میں شرعی حصوں کے بقدر مرحوم کی بیوہ، بیٹے اور بیٹیوں سب کا حق ہے۔ والد کی وصیت پر عمل کرنے کے لیے اگر کوئی اپنا حصہ خوشی اور رضامندی سے چھوڑنا چاہے تو وہ کچھ حصہ لے کر باقی حصہ چھوڑ سکتا ہے،  لیکن کوئی بھی دوسرے کے حصے سے والد کی وصیت کو بنیاد بنا کر اپنے حق سے زائد کا مستحق نہیں ہے۔

آپ کے والد مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے   حقوقِ  متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم کے ذمے  کوئی قرضہ ہو  تو کل ترکہ سے  قرضہ ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرکے  باقی کل  منقولہ و غیر منقولہ ترکہ  کو 80  حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے 10 حصے مرحوم کی بیوہ کو،  14 حصے  مرحوم کے  ہر ایک بیٹے کو اور  7  حصے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

المبسوط للسرخسي (27 / 175):

"أن الوصية للوارث لاتجوز بدون إجازة الورثة؛ لقوله عليه السلام: «لا وصية لوارث إلى أن يجيزه الورثة»."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں