مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں:
ساتھ ایک اور بھی وضاحت فرمائیں کہ بہن بھائیوں میں سے صرف ایک بھائی کی شادی ہوئی ہے۔ جس کے حصے میں وہ دوکان جس کا کرایہ مبلغ 77000 ہزار سالانہ ہے۔ اِس بھائی کے ساتھ علیحدگی ہو چکی ہے۔ اور دوسرے بھائی بہن اس سے شادی کا خرچ (نصف) طلب کر رہے ہیں۔ علیحدہ رہنا اور الگ گھر کا خرچ یعنی کھانا پکانا یہ باقی بہن بھائیوں کی خواہش اور مرضی تھی۔ اِس خواہش کا تعلق اس بھائی سے نہیں ہے، جس کی ابھی شادی ہوئی ہے۔کیا یہ بھائی علیحدہ ہونے پر ان کو اپنی شادی کا (نصف ) خرچ دینے کا پابند ہو گا یا نہیں؟
۱۔۲۔ عبدالرحمن مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائیداد کی تقسیم کی جو صورت متعین کی تھی اس کے مطابق تقسیم لازم نہ تھی، بلکہ تمام ورثاء شرعی حصوں کے اعتبار سے وراثت کے مستحق تھے ،البتہ عبدالرحمن کے انتقال کے بعد اگر تمام اولاد بالغ تھی اورتمام ورثاء نے باہمی رضامندی سے والد کی خواہش کے مطابق شہر کی دکانیں آپس میں تقسیم کی ہیں اور ہرایک کو اس کا حصہ قبضہ کے ساتھ دے دیا ہے تویہ تقسیم درست ہوگئی، اگرچہ آمدنی کے حساب سے ہر ایک کے حصہ میں فرق ہے ؛ اس لیے کہ عاقل بالغ ورثاء باہمی رضامندی سے وصیت یا والد کی خواہش کی مطابق تقسیم پر راضی ہوجائیں تو شرعاً اس میں حرج نہیں۔نیز جو جائیداد تاحال تقسیم نہیں ہوئی اگر اس جائیداد کی والد کی منشا کے مطابق تقسیم پرتمام ورثاء راضی ہوں تو اس کی بھی اجازت ہے، ورنہ اس جائیداد کوآٹھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جس میں سے دو، دو حصے ہر ایک بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہرایک بیٹی کو ملے گا۔
۳۔جس بھائی کی شادی ہوچکی ہے وہ دوسرے بہن بھائیوں کو ان کی شادی کاخرچ دینے کاپابند نہیں۔فتاوی ہندیہ میں ہے:
’’ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزهاالورثة، ولو أوصى لوارثه ولأجنبي صح في حصة الأجنبي ويتوقف في حصة الوارث علىإجازة الورثةإن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطل ولا تعتبر إجازتهم في حياة الموصي حتى كان لهم الرجوع بعد ذلك ، كذا في فتاوى قاضي خان . ‘‘فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143811200042
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن