بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ورثاء کے درمیان والد کی خواہش کے مطابق تقسیم وراثت


سوال

مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں:

  1. عبدالرحمٰن نے اپنی زندگی میں اپنے بچوں سے کہا کہ فلاں کو یہ دوکان ملے گی ،فلاں بچے کویہ والی دوکان اور بچیوں کو یہ والی دوکان۔ عبد الرحمٰن کی اولاد میں 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں۔ عبد الرحمٰن کی شہر میں 4 دوکانیں ہیں۔اس کے علاوہ گاؤں میں ایک گھر اور گھر کے ساتھ ملحقہ 4 دوکانیں اور کچھ زرعی زمین بھی ہے،جو کہ تقریباً 20 کنال زرعی زمین، اور ایک کنال اور 9 مرلے بشمول 4 دوکانوں کے گھر والی جگہ ہے۔عبدالرحمٰن اور اس کی بیوی فوت ہوچکے ہیں۔ بھائی  والد کی خواہش کے مطابق عدالت کے ذریعے شہر والی دوکانیں جس طرح والد نے کہی تھیں اُسی طرح سب کے نام کرا چکے ہیں۔یہاں ایک بات قابل غور یہ ہے کہ شہر والی چاروں دوکانوں کی قیمت، پیمائش اور ان سے ہونے والی آمدن بھی مختلف ہے۔(مثال کے طور پر ایک دوکان کا کرایہ ایک لاکھ اسی ہزار،دوسری کا ایک لاکھ ستر ہزار،تیسری کا ایک لاکھ دس ہزار اور چوتھی کا ستتر ہزار (77000)کرایہ سالانہ موصول ہو رہا ہے)۔باقی جگہ ابھی نہ تقسیم ہوئی ہے نہ نام ہوسکی ہے۔ کیا یہ تقسیم جو والد صاحب نے اپنی زندگی میں اولاد کو بتائی اور ان کی وفات کے بعد عدالت کے ذریعے ہوئی ، شرعی طور پر ٹھیک ہوئی ہے؟
  2. اگر تقسیم ٹھیک نہیں ہوئی تو  ابھی دوبارہ کیا صورت اپنائی جائے جس سے معاملہ حل ہوجائے اور کوئی لڑائی نہ ہو۔ عبدالرحمٰن نے تقسیم والی بات اپنی اولاد سے زبانی فرمائی تھی۔قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائی جائے۔

ساتھ ایک اور بھی وضاحت فرمائیں کہ بہن بھائیوں میں سے صرف ایک بھائی کی شادی ہوئی ہے۔ جس کے حصے میں وہ دوکان جس کا کرایہ مبلغ 77000 ہزار سالانہ ہے۔ اِس بھائی کے ساتھ علیحدگی ہو چکی ہے۔ اور دوسرے بھائی بہن اس سے شادی کا خرچ (نصف) طلب کر رہے ہیں۔ علیحدہ رہنا اور الگ گھر کا خرچ یعنی کھانا پکانا یہ باقی بہن بھائیوں کی خواہش اور مرضی تھی۔ اِس خواہش کا تعلق اس بھائی سے نہیں ہے، جس کی ابھی شادی ہوئی ہے۔کیا یہ بھائی علیحدہ ہونے پر ان کو اپنی شادی کا (نصف ) خرچ دینے کا پابند ہو گا یا نہیں؟

جواب

۱۔۲۔      عبدالرحمن مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائیداد کی تقسیم کی جو صورت متعین کی تھی اس کے مطابق تقسیم لازم نہ تھی، بلکہ تمام ورثاء شرعی حصوں کے اعتبار سے وراثت کے مستحق تھے ،البتہ عبدالرحمن کے انتقال کے بعد اگر تمام اولاد بالغ تھی اورتمام ورثاء نے باہمی رضامندی سے والد کی خواہش کے مطابق شہر کی دکانیں آپس میں تقسیم کی ہیں اور ہرایک کو اس کا حصہ قبضہ کے ساتھ دے دیا ہے تویہ تقسیم درست ہوگئی، اگرچہ آمدنی کے حساب سے ہر ایک کے حصہ میں فرق ہے ؛ اس لیے کہ عاقل بالغ ورثاء باہمی رضامندی سے وصیت یا والد کی خواہش کی مطابق تقسیم پر راضی ہوجائیں تو شرعاً اس میں حرج نہیں۔نیز جو جائیداد تاحال تقسیم نہیں ہوئی اگر اس جائیداد کی والد کی منشا کے مطابق تقسیم پرتمام ورثاء راضی ہوں تو  اس کی بھی اجازت ہے،  ورنہ اس جائیداد کوآٹھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جس میں سے دو، دو حصے ہر ایک بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہرایک بیٹی کو ملے گا۔

۳۔جس بھائی کی شادی ہوچکی ہے وہ دوسرے بہن بھائیوں کو ان کی شادی کاخرچ دینے کاپابند نہیں۔فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزهاالورثة، ولو أوصى لوارثه ولأجنبي صح في حصة الأجنبي ويتوقف في حصة الوارث علىإجازة الورثةإن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطل ولا تعتبر إجازتهم في حياة الموصي حتى كان لهم الرجوع بعد ذلك ، كذا في فتاوى قاضي خان . ‘‘فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143811200042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں