بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ورثاء کے حصوں کو روکے رکھنا جائز نہیں


سوال

ہماری ایک فیکٹری ہے  جو کافی عرصے سے بند ہے۔ اس کے 4 پارٹنر ہیں۔

 1۔ والد صاحب 25٪ فیصد کے مالک۔ 7 سال ہو گئےان کے انتقال کو۔وارث 8 بیٹے 4 بیٹیاں اور بیوہ۔

 2۔ بڑی امی 25٪ فیصد کی مالک۔ 4 سال ہو گیا انتقال کو،وارث ایک بیٹا ایک  بیٹی ۔

 3۔ بڑے بھائی شاہنواز احمد 25٪ فیصد کے مالک۔

 4۔ میں امتیازاحمد 25٪ فیصد کا مالک۔

 ہمارے بڑے بھائی 20 سال سے اس فیکٹری کو بیچنے نہیں  دے رہے۔والد صاحب اور ہماری لاکھ کوشش کے باوجود - اسی دوران والد صاحب کا انتقال ہو گیا- ہماری والدہ کے نام وہ مکان تھا جس میں  میں اور ایک بھائی رہ رہے تھے ۔ ہماری والدہ اس وقت بھی حیات ہیں، لیکن ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے۔

والد صاحب کے انتقال کے کچھ سال بعد والدہ نے اپنے ایک بیٹے ( خالق نواز ) کو مکان بیچنے کے لیے پاورآف اٹارنی دے دی ، اور کہا کہ مکان بیچ کر سارے بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر برابر رقم دے دینا۔ بھائی (خا لق نواز) نے مکان بیچ کر سارے بھائی بہنوں کو برابر رقم دے دی۔ مگر بڑے بھائی( شاہنواز احمد) کی رقم روک لی۔ اور اس کی رقم امی کے اکاونٹ میں پڑی ہے۔ وہ اس لیے کہ شاید اس کے پریشر سے بڑے بھائی فیکٹری کا مسئلہ حل کرنے کے لیےراضی ہو جائیں لیکن وہ نہیں مانے۔

 اس فیکٹری کی ایک (25٪ فیصد کی )مالک بڑی امی کے وارث بیٹا اور بیٹی دونوں معا شی طور پر بہت پریشان ہیں اور ہمارے بڑے بھائی فیکٹری بیچنے نہیں دے رہے۔

اسی طرح ایک پارٹنر ( 25٪ فیصد کا ) میں امتیاز احمد بھی معا شی طور پرپریشان ہوں ۔ بڑے بھائی کی وجہ سے میرا حصہ بھی رکا ہوا ہے۔

 کیا ایسا ممکن ہے کہ بڑے بھائی کی جو رقم روک لی ہے وہ  باقی تمام وارثوں میں تقسیم کردی جائے تا کہ وہ اپنی ضرورت پوری کر سکیں۔ اور جب فیکٹری کا سودا ہو جائے تو اس میں سے بھائی کو رقم واپس کردی جائے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جب فیکٹری کے اکثر شرکاء ، اورکچھ شرکاء کے ورثاء فیکٹری کے بیچنے کامطالبہ کررہے ہیں تو ایک شریک کاسب کے حق کو روکے رکھنااور فروخت نہ کرنے دیناشرعی طور پرناجائز ہے۔ہر شریک اپنے حصے میں خود مختار ہے اوربیچنے یا کسی اور کو منتقل کرنے کا مجا زہے۔ نیز شرکاء کے ورثاء کو بھی ترکہ تقسیم کرنے کے مطالبے کا حق حاصل ہے؛ لہٰذا اگربڑابھائی کسی بھی صورت دوسروں کے حصے ادانہیں کررہاتو دیگرشرکاء کو قانونی کارروائی کاحق حاصل ہے۔

البتہ بڑے بھائی کے حصہ میں والدہ کے مکان کو فروخت کرنے کی صورت میں جو رقم آئی ہے اس بارے میں یہ تفصیل ہے کہ :

اگر مکان والدہ کی ملکیت تھا اوراب تک بڑے بھائی کو اس کے حصےکی رقم نہیں دی گئی ہے تو وہ حصہ اب تک والدہ ہی کی ملکیت ہے اور اب جب کہ والدہ کا ذہنی توازن درست نہیں ہے تو بڑے بھائی کے حصے کی رقم اسے دینا بھی جائز نہیں ہے اورکوئی اوربھی اس رقم کو اپنے استعمال میں نہیں لاسکتا۔

اگر مکان (والد کے) ترکہ کا تھااوروالدہ نے فروخت کروایا ہے تو بڑے بھائی کاحصہ برقرار ہے۔اس صورت میں اگر بھائی نےکسی کی رقم نہیں روکی ہے تو ان کاحق بھی نہیں روکا جاسکتا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143810200004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں