بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم، ورثاء: بیوہ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں


سوال

 میرے والد صاحب کا انتقال 2009 میں ہوا تھا، میرے والد صاحب کی ملکیت ایک مکان تھا،  ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں،  ہماری ایک شادی شدہ بہن کا انتقال والد صاحب کی زندگی میں ہو گیا تھا، ہماری مرحوم بہن سمیت چار بہنیں ہیں اور الحمداللہ ہماری والدہ بھی حیات ہیں،  ہم نے مطلب میں نے اور میرے بھائی نے والد صاحب کی ملکیت مکان بیچ دیا اور اپنے لیے ایک مشترکہ مکان بنوایا ہے جس میں اپنے والد صاحب کے مکان کی فروخت کے پیسے بھی شامل کرلیے تھے،  میں اب چاہتا ہوں کہ ہم اپنی بہنوں کو اور والدہ کو باپ کی وراثت میں جو حق ہے وہ ادا کر دیں، اس کی مکمل تفصیل بتا دیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے حقوقِ متقدمہ (قرض، وصیت وغیرہ)  کی ادائیگی کے بعد مرحوم کے ترکہ میں سے بیوہ کو  12.5%، ہر بیٹے کے 25% اور ہر زندہ بیٹی کو 12.5% ملے گا۔

جس بیٹی کا مرحوم کی زندگی میں ہی انتقال ہوگیا تھا اس کا مرحوم کی وراثت میں حصہ نہیں ہوگا؛ کیوں کہ وراثت میں حصہ صرف مرنے والے کے زندہ وارثین کا ہوتا ہے۔

مرحوم کا جو گھر  مرحوم کے بیٹوں نے بیچ کر دوسرے گھر  میں اس کے پیسے لگائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ جس تناسب سے پیسے دوسرے گھر میں لگائے، اس تناسب سے اس گھر کی موجودہ قیمت میں تمام ورثاء کا اپنے حصوں کے حساب سے حق ہوگا۔ مثلاً آدھی  قیمت والد کے ترکے کے فروخت کردہ گھر کی مالیت تھی اور آدھی قیمت سائل اور اس کے بھائی نے ملائی تھی تو خرید کردہ مکان کے نصف میں تمام ورثاء شریک ہوں گے۔

بہرحال اس گھر میں موجود حصے اور مرحوم والد کی دیگر جائیداد اگر ہے تو سب کو ملاکر درج بالا فیصدی تناسب کے اعتبار سے ترکہ تقسیم کردیجیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں