بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت تقسیم کرنے کی ایک صورت کا حکم


سوال

بے اولاد  شخص انتقال کر جائے، خاندان میں ماں ، 1  بیوی، 3 بہنیں، ایک بھائی بمعہ 2 بچے، ایک بیوہ بھابھی بمعہ  3 بچے، اس شخص  کی جائیداد کی تقسیم کیسے ہو گی؟ کوئی بے اولاد اپنی زندگی  میں وصیت برائے جائیداد کر سکتا ہے اپنی مرضی کی تقسیم سے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  ترکہ میں سے تجہیز  و تکفین  اور  واجب الادا قرض  کی ادائیگی کے بعد  مرحوم کی جائز وصیت کو  کل ترکہ کے ایک تہائی سے  نافذ کرنے کے بعد  بقیہ ترکہ کو  ۶۰ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اور  مرحوم کی والدہ کو  ۱۰ حصے،  بیوہ کو   ۱۵  حصے، ہر بہن کو  ۷  حصے  اور بھائی کو ۱۴ حصے ملیں گے ۔

یعنی  فیصد کے اعتبار سے مرحوم  کی  والدہ  کو  16 اعشاریہ  66  فیصد، مرحوم کی بیوہ کو 25 فیصد، مرحوم کی ہر ایک بہن کو  11 اعشاریہ 66 فیصد اور مرحوم کے بھائی کو 23 اعشاریہ 33 فیصد ملے گا۔

بیوہ بھابھی کو ترکہ  میں حصہ نہیں ملتا، اسی طرح بھائی کی موجودگی میں بھتیجوں کو کچھ نہیں ملتا۔

(۲) اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کو یہ حق حاصل ہے اور وصیت کر سکتا ہے، البتہ اگر غیر وارث کے حق میں ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرے گا تو تہائی سے زائد مقدار میں ورثاء کی اجازت پر موقوف ہو گی، اور اگر وارث کے حق میں وصیت کرتا ہے تو اس کا نفاذ دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف ہو گا اگر چہ وصیت ایک تہائی سے کم مال میں کی گئی ہو۔ یہی حکم اپنی مرضی سے تقسیم کی وصیت کا بھی ہے۔

الفتاوى الهندية (6/ 90):
"ولاتجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة".
  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200743

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں