بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر کے بعد دو سجدے اور دعائے زہرا کا پڑھنا


سوال

آج کل ایک میسج چل رہا ہے کہ(وتر کی نماز پڑھنے کے بعد دو سجدے کرنے ہیں، پہلے میں ’’سبوح قدوس رب الملآئکة والروح‘‘ پانچ مرتبہ پڑھ کر جلسہ کرنا ہے اور آیت الکرسی ایک مرتبہ پڑھ کر دوبارہ سجدہ میں ’’سبوح قدوس رب الملآئکة والروح‘‘پانچ مرتبہ پڑھنا ہے) یہ وظیفہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بتایا ہے۔ اس کے فضائل میں ہے کہ جگہ  سے اٹھنے سے پہلے اس کی اللہ مغفرت فرماتے ہیں، اور اس کو سو حج سو عمرےسو شہیدوں کا ثواب عطا فرماتے ہیں، ہزا ر فرشتے نازل کرتے ہیں جواس کے لیے نیکیاں لکھتے ہیں اور ساٹھ بندوں کی سفارش کا حکم اللہ فرمائیں گے۔

کیا یہ کسی حدیث سے ثابت ہے؟ اور اس پر عمل کرنے والے کو ثواب ملے گا؟

جواب

اس مضمون سے متعلق ایک موضوع( من گھڑت)  روایت مختلف کتابوں میں موجود ہے۔ اور کتبِ روافض میں ( دعاء الزہراء) کے عنوان سے ہے:

’’عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال لفاطمة رضي الله عنها: ما من مؤمن ولا مؤمنة يسجد بعد الوتر سجدتين يقول في سجوده خمس مرات: "سبوح قدوس رب الملائكة والروح"، ثم يرفع رأسه ويقرأ اٰية الكرسي مرةً، ثم يسجد ويقول فى سجوده خمس مرات: "سبوح قدوس رب الملائكة والروح"، والذي نفس محمد بيده أنه لايقوم من مقامك حتى يغفر له وأعطاه ثواب مائة حجةٍ ومائة عمرةٍ، وأعطاه الله ثواب الشهداء، وبعث الله إليه ألف ملك يكتبون له الحسنات، وكأنما أعتق مائة رقبة، واستجاب الله تعالى دعائه، ويشفع يوم القيامة في ستين من أهل النار‘‘.
لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس حدیث  سے متعلق  علماء نے باطل اور من گھڑت کا حکم  لکھا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔

علامہ حلبی نے اس کی تصریح کی ہے کہ یہ حدیث من گھڑت ہے ۔چناں چہ فرماتے ہیں !

’’فحديث موضوع باطل لا أصل له، ولا يجوز العمل به، ولا نقله إلا لبيان بطلانه كما هو شأن الأحاديث الموضوعة، ويدل على وضعه ركاكته، والمبالغة الغير الموافقة للشرع والعقل؛ فإن الأجر على قدر المشقة شرعاً وعقلاً، وأفضل الأعمال أحمزها، وإنما قصد بعض الملحدين بمثل هذا الحديث إفساد الدين وإضلال الخلق وإغرائهم بالفسق وتثبيطهم عن الجد فى العبادة؛ فيغتر به بعض من ليس له خبرة بعلوم الحديث وطرقه ولا ملكة يميز بها بين صحيحه وسقيمه‘‘.  (غنية المستملي – حلبي الكبير ص: ٦١٧ مكتبة رشيدية)

یعنی یہ موضوع،باطل اور بے اصل حدیث ہے،نہ اس پر عمل جائز ہے،نہ اسے نقل کرنا، الا یہ کہ یہ  بتانے کے لیےذکر کرے کہ یہ باطل روایت ہے ،جیساکہ دیگر احادیثِ موضوعہ کا حکم ہے۔

(۱۔  فتاوی تاتارخانیه 2/346  نمبر 2617

۲۔  نزهة المجالس للصفوري 1/227  باب مناقب فاطمة الزهراء

۳۔  خزينة الأسرار للكاتب محمد حقي النازلي ص 40

۴۔  غنیة المتملي شرح منیة المصلي ( حلبی کبیر ) 617

۵۔  حاشیة رد المحتار لابن  عابدین الشامي (ج: 2، ص: 120) باب سجود التلاوة)

فتاوی دار العلوم زکریا (1/386) پر اس حدیث کے متعلق لکھا ہے :

’’یہ روایت موضوع ہے، ان کلمات کے پڑھنے سے اتنے فضائل کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ البتہ’’ سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح‘‘کا پڑھنا حضور سے ثابت ہے‘‘۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں