بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر کی تین رکعات کا ثبوت


سوال

سنا ہے وتر کی تین رکعت کی کوئی ایک صحیح حدیث بھی نہیں۔  اگر ہے تو راہ نمائی فرمائیں!

جواب

وتر کے تین رکعات کے ثبوت پر کئی صحیح روایات موجود ہیں،  جس پر مستقل رسالے بھی لکھے گئے ہیں،  ذیل میں چند روایات پیش کی جارہی ہیں جن کی سندیں خود محدثینِ کرام کی تصریح کے ساتھ درست ہیں:

1- "أخبرنا علي بن ميمون قال: حدّثنا مخلد بن يزيد عن سفيان عن زبيد عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزي عن أبيه عن أبي بن كعب: أنّ رسول الله صلّى الله عليه و سلّم كان يوتر بثلاث ركعات كان يقرأ في الأولى بـ {سبح اسم ربك الأعلى} وفي الثانية بـ {قل يا أيها الكافرون} وفي الثالثة بـ {قل هو الله أحد}، ويقنت قبل الركوع، فإذا فرغ قال عند فراغه: "سبحان الملك القدوس" ثلاث مرات يطيل في آخرهن".  (سنن النسائي، أخبار اختلاف ألفاظ الناقلین لخبر أبي بن کعب رضی الله عنه :۳/۲۳۵، ط:مکتب المطبوعات الإسلامیة حلب)

2- امام ابن ماجہ نے فرمایا:

"حدثنا محمد بن عبيد بن ميمون أبو عبيد المديني، حدثنا أبي عن محمد بن جعفر عن موسى بن عقبة عن أبي إسحاق عن عامر الشعبي قال:  سألت عبد الله بن عباس وعبد الله بن عمر عن صلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم بالليل، فقالا: ثلاث عشرة ركعةً، منها ثمان، ويوتر بثلاث، وركعتين بعد الفجر". (سنن ابن ماجه، باب  ما جاء في کم یصلی باللیل:۱/۴۳۳، ط: دارالفکر بیروت)

امام نسائی رحمہ اللہ  کی سند صحیح ہے، امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو  ابوعلی بن السکن کی صحیح کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے،  اور عقیلی رحمہ اللہ کے حوالے سے بھی اس کی تصحیح کو ذکر کیا ہے ، علامہ عینی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اسے سندِ صحیح کے ساتھ ذکر کیا ہے  اور خود  شیخ البانی نے بھی اس کی تصحیح کی ہے۔  اس کے علاوہ بھی دیگر روایات ہیں ،جس کی مزید تفصیل کے لیے ’’اعلاء السنن‘‘ مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ ، اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے رسالے ’’کشف الستر في صلاة الوتر‘‘   کا مطالعہ کرلیا جائے ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200780

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں