بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی رضامندی کےبغیربچوں کا بھاگ کر شادی کرنےکا حکم


سوال

کیا بچے کی رضامندی ناہو، تو کیا والدین زبردستی بچے کی شادی کروا سکتے ہیں  اپنی پسسند کی جگہ پر ؟  اور کیا بچہ بھاگ کرشادی کرسکتا ہے؟ اگر والدین اس کی رضامندی کو  نا دیکھیں تو !

جواب

واضح  رہے  کہ عاقل  بالغ  لڑکے اور   لڑکی  پر نکاح  کے  معاملہ  میں  جبر  اور  زبردستی  کرنا درست نہیں، والدین کو چاہیے کہ نکاح کے معاملہ میں اپنے بچوں کی پسند کی رعایت کریں، لیکن اولاد کو بھی چاہیے کہ والدین کو اپنا خیرخواہ سمجھتے ہوئے ان کی پسند کو  اپنی پسند پر ترجیح دیں ؛ اس لیے کہ عمومًا والدین اور بزرگوں کے طے کردہ رشتے  آگے چل کر خوش گوار ثابت ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک چیز فی الحال ناپسند ہو، لیکن بعد میں وہ خیر اور محبت کا ذریعہ بن جائے،اس لیے مسلمان بچوں اوربچیوں کوچاہیے کہ وہ  اپنے ذمے کوئی بوجھ اٹھانےکے بجائے اپنےبڑوں پراعتماد کریں،  ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ نیز شریعت نے لڑکے، لڑکی کے نکاح کا اختیار والدین کو دے کر انہیں بہت سی نفسیاتی و معاشرتی سی الجھنوں سے بچایا ہے،  اس لیے کسی واقعی شرعی مجبوری کے بغیر خاندان کے بڑوں کے موجود ہوتے ہوئے لڑکے یا لڑکی کا از خود آگے بڑھنا خدائی نعمت کی ناقدری ہے، بےشمار واقعات شاہد ہیں کہ کسی کے بہکاوے میں آکر کیے گئے یہ نادانی کے فیصلے بعد کی زندگی کو اجیرن کر ڈالتے ہیں، لہذا بصورتِ  مسئولہ کورٹ  میرج، یا بھاگ کر شادی کرنا  شرعاً، عرفاً اور اخلاقاً نہایت نامناسب عمل ہے  جس سے گریز چاہیے۔ اور والدین  کو بھی چاہیے کہ عاقل  بالغ اولاد کی رائے کا احترام  کریں اور  ایسا رویہ ہر گز نہ  رکھیں کہ اولاد کوئی ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائے جو سب کے لیے رسوائی کا باعث ہو۔ اگر والدین زبردستی کسی جگہ رشتہ کردیں اور اولاد  اسے قبول نہ کرے تو نکاح اس وقت تک موقوف رہے گا جب تک وہ قولی یا فعلی طور پر قبول نہ کرلے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201599

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں