بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی بدمزاجی کی صورت میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک


سوال

والدین اگر بڑھاپے کی وجہ سے قدرتی طور پر ذہنی طور پر حساس اور مزاج کے غصہ وَر ہوچکے ہوں اور اولاد کی نجی زندگی کے بنیادی معاملات، مثلاً: بازار جانا، دینی محافل جانا، بچوں کو کبھی کبھی تفریح پر لے جانا، بیوی بچوں کو نانا نانی کے گھر لے جانا، ضروری ذاتی خرچہ وغیرہ وغیرہ پر ناراض ہوتے اور غصہ کرتے رہیں،جب کہ اُن کی کوئی بنیادی ضرورت اور خدمت بھی فوت نہیں ہوتی، تو ایسے میں والدین کی بےجا ناراضی پر بھی اولاد جہنم جائے گی؟ اولاد اپنی ذاتی زندگی اور بیوی بچوں کے معاملات میں کس حد تک والدین کی ہر بات کو ماننے کی پابند ہے؟ کیا شریعت اولاد کو بھی کوئی حق دیتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں اس سلسلے میں دوطرفہ حقوق (اولاد کے والدین پر اور والدین کے اولاد پر دونوں) کی حدود واضح کر دی گئی ہیں۔ قرآنِ کریم میں خدا تعالی نے والدین کی اطاعت کے ضروری ہونے کو توحید جیسے اہم عقیدے کے ساتھ ذکر کرکے اس کی اہمیت بتلادی ہے۔ اولاد کے ذمے لازم ہے کہ والدین کے شریعت کے موافق ہر حکم کو بجالائے۔ والدین کے ذمے بھی لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد میں ہر ممکن حد تک برابری اور انصاف کریں، اپنی اولاد کی خوشیوں کا خیال رکھیں،انہیں ان کی جائز ضروریات  اور معاملات سے محروم نہ رکھیں، اور ان پر بے جا ظلم وزیادتی سے ہر طرح گریز کریں۔

لہذا اگر کوئی شخص اپنے والدین کے ساتھ  حسنِ سلوک کرتاہے اور ان کی خدمت واطاعت بجالاتا ہے، اس صورت میں والدین کو بھی اولاد کی ضروریات کا خیال رکھناچاہیے، اگر والدین بے جا  ناراضی کا اظہار کرتے ہیں اور جائز معاملات میں بھی روک ٹوک کرتے ہیں تو اس کی وجہ سےان شاء اللہ  اولاد کا مواخذہ نہیں  ہوگا۔ تاہم اس صورت میں بھی والدین کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے،اور انہیں شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھانا چاہیے، اور والدین جب غصہ ہوں تو ان کے سامنے جواب نہ دیں، انہیں جھڑکیں نہیں، بلکہ ادب سے ان کی بات سنیں، اور ان کے حق میں وہ دعا کرتے رہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سکھائی ہے:

{رَبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِيْ صَغِیْرًا}

یعنی اے میرے رب! ان دونوں (میرے والدین) پر رحم فرما، جیسے انہوں نے مجھے بچپن میں پالا اور تربیت کی۔ 

بیوی بچوں کے جداگانہ حقوق ہیں اور والدین کے مستقل حقوق ہیں، کسی ایک کی ادائیگی کی وجہ سے دوسرے کی حق تلفی درست نہیں ہے، اس لیے جہاں والدین کے حقوق (خدمت و راحت رسانی اور ادب و احترام) کی ادائیگی کی حتی الوسع کوشش کرتے رہنا چاہیے، اسی طرح بیوی اور اولاد کے حقوق ادا  کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر انسان ہمت کرے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مانگتا رہے تو دونوں (والدین اور بیوی بچوں) کے حقوق ادا کرنا آسان ہوجاتاہے۔

اگر کبھی والدین سے زیادتی ہو تو یہ سوچیں کہ بچپن میں ہم نے والدین کو کتنا تنگ کیا، ہم بھی بے جا غصہ ہوتے تھے، بے وقوفی کی باتیں کرتے تھے، ایک ہی سوال کئی کئی مرتبہ کیا کرتے تھے، لیکن والدین بڑی محبت سے جواب دیتے تھے اور ہمیں سمجھاتے تھے، وہ غصہ نہیں ہوتے تھے، یہی بات بیوی کو بھی سمجھائیں کہ آج یہ بوڑھے ہیں کل ہماری یہ حالت ہوجائے اور ہماری اولاد ہمارے ساتھ سخت رویہ رکھے تو ہمیں کیسا محسوس ہوگا؟! اور بچوں کے دل میں بھی دادا دادی کی محبت اور احترام بٹھائیں۔ اور والدین کے مطالبات میں سے جس حد تک مطالبات پورے ہوسکتے ہوں اپنے اخراجات اور معمولات میں سے انہیں کم کریں تو اس میں اولاد ہی کی سعادت ہے۔

والدین کی بات کس حد تک ماننی چاہیے؟ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی تحریرنقل کی جاتی ہے امید ہے کہ اس میں آپ کے لیے تشفی بخش جواب موجود ہوگا،ملاحظہ ہو:

’’ ماں باپ کی بات کس حد تک ماننا ضروری ہے؟

ج… والدین کی فرماں برداری اور ان کی خدمت کے بارے میں واقعی بڑی سخت تاکیدیں آئی ہیں، لیکن یہ بات غلط ہے کہ والدین کی ہر جائز و ناجائز بات ماننے کا حکم ہے، بلکہ والدین کی فرماں برداری کی بھی حدود ہیں، میں ان کا خلاصہ ذکر کردیتا ہوں:

اوّل:… والدین خواہ کیسے ہی بُرے ہوں، ان کی بے ادبی و گستاخی نہ کی جائے، تہذیب و متانت کے ساتھ ان کو سمجھا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ سمجھانا ضروری ہے، لیکن لب و لہجہ گستاخانہ نہیں ہونا چاہیے، اور اگر سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

دوم:… اگر وہ کسی جائز بات کا حکم کریں تو اس کی تعمیل ضروری ہے بشرطیکہ آدمی اس کی طاقت بھی رکھتا ہو اور اس سے دُوسروں کے حقوق تلف نہ ہوتے ہوں، اور اگر ان کے حکم کی تعمیل اس کے بس کی بات نہیں یا اس سے دُوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے تو تعمیل ضروری نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جائز نہیں۔

سوم:… اگر والدین کسی ایسی بات کا حکم کریں جو شرعاً ناجائز ہے اور جس سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، تب بھی ان کے حکم کی تعمیل جائز نہیں، ماں باپ تو ایسا حکم دے کر گناہ گار ہوں گے، اور اولاد ان کے ناجائز حکم کی تعمیل کرکے گناہ گار ہوگی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشادِ گرامی ہے: ’’لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق‘‘  یعنی جس چیز میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو اس میں کسی مخلوق کی فرماں برداری جائز نہیں۔” مثلاً: اگر والدین کہیں کہ: “نماز مت پڑھو، یا دِین کی باتیں مت سیکھو، یا داڑھی مت رکھو، یا نیک لوگوں کے پاس مت بیٹھو  وغیرہ وغیرہ، تو ان کے ایسے اَحکام کی تعمیل جائز نہیں، ورنہ والدین بھی جہنم میں جائیں گے اور اولاد کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔

اگر والدین یہ کہیں کہ: ’’بیوی کو طلاق دے دو‘‘  تو یہ دیکھنا چاہیے کہ بیوی قصوروار ہے یا نہیں؟ اگر بیوی بے قصور ہو تو محض والدین کے کہنے سے طلاق دینا جائز نہیں۔ اگر والدین کہیں کہ: ’’بیوی کو تنہا مکان میں مت رکھو‘‘  تو اس میں بھی ان کی تعمیل روا نہیں۔ البتہ اگر بیوی اپنی خوشی سے والدین کے ساتھ رہنے پر راضی ہو تو دُوسری بات ہے، ورنہ اپنی حیثیت کے مطابق بیوی کو علیحدہ مکان دینا شریعت کا حکم ہے، اور اس کے خلاف کسی کی بات ماننا جائز نہیں۔

چہارم:… والدین اگر ماریں پیٹیں، گالی گلوچ کریں، بُرا بھلا کہیں یا طعن و تشنیع کرتے رہیں، تو ان کی ایذاوٴں کو برداشت کیا جائے اور ان کو اُلٹ کر جواب نہ دیا جائے۔

پنجم:… آپ نے جو لکھا ہے کہ: “اگر والدین کہیں کہ ....اپنی اولاد کو مار ڈالو تو ...اولاد کو مار ڈالنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور میں لکھ چکا ہوں کہ ناجائز کام میں والدین کی اطاعت جائز نہیں...!"۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل 8/558)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں